شوبز شخصیات کا عبداللہ قریشی کے موسیقی چھوڑنے کے فیصلے پر رد عمل
مذہب اسلام کے نام پر گلوکار عبداللہ قریشی کی جانب سے موسیقی کو چھوڑنے پر متعدد شوبز شخصیات نے ان کے فیصلے پر رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ دوسروں کو ’ملزم‘ یا ‘گناہ گار‘ جیسا قرار دینے کا کام نہ کریں۔
عبداللہ قریشی نے چند دن قبل مذہب اسلام کی خاطر موسیقی کو چھوڑنے کا اعلان کیا تھا۔
انہوں نے بتایا تھا کہ اب وہ نہ تو میوزک کنسرٹس کریں گے اور نہ ہی اشتہارات میں کام کرتے دکھائی دیں گے، البتہ وہ سوشل میڈیا پر اپنی پسند کے منصوبے ضرور کرتے رہیں گے۔
عبداللہ قریشی نے انسٹاگرام پوسٹ میں واضح کیا تھا کہ وہ خالصتا مذہب اسلام اور خدا کی رضامندی کی خاطر موسیقی سے الگ ہو رہے ہیں۔
ان کی جانب سے مذہب اسلام کی خاطر موسیقی کو الوداع کہنے پر متعدد شوبز و میوزک شخصیات نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اگرچہ ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا، تاہم ساتھ ہی انہیں بتایا کہ وہ موسیقی کو ’حرام‘ قرار دے کر دوسرے لوگوں کو ’گناہ کار‘ یا ’ملزم‘ نہ بنائیں۔
یہ بھی پڑھیں: گلوکار عبداللہ قریشی نے اسلام کی خاطر موسیقی چھوڑ دی
ان کے فیصلے پر حمزہ علی عباسی نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ جہاں تک ان کا مطالبہ ہے تو مذہب اسلام میں موسیقی مکمل طور پر حرام نہیں، انہوں نے عبداللہ قریشی کو چند یوٹیوب ویڈیوز دیکھنے کی تجویز بھی دی۔
ان کی طرح گلوکارہ نتاشا بیگ نے بھی عبداللہ قریشی کی جانب سے موسیقی چھوڑنے کے فیصلے پر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور لکھا کہ کسی کو بھی ’بیداری‘ کے نام پر خود کو درست اور باقی تمام افراد کو ’ملزم‘ یا ’غلط‘ پیش کرنے کا کوئی حق نہیں۔
انہوں نے گلوکار کا نام لکھے بغیر کہا کہ جس شخص نے جس بھی سفر کا انتخاب کیا ہے، وہ اس کی اپنی مرضی ہے لیکن وہ اپنے سفر کے لیے دوسروں کو غلط سمجھنے کی ترغیب نہ دے۔
گلوکارہ نے لکھا کہ گناہ کا تعلق انسان کے نفس سے ہے اور یہ ہر مذہب میں ممنوع ہے۔
ان کی طرح ماڈل و اداکارہ انوشے اشرف نے بھی عبداللہ قریشی کے فیصلے پر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور طویل پوسٹ میں لکھا کہ موسیقی کی مذہب میں ممانعت سے متعلق بحث کی جا سکتی ہے اور اس پر بحث جاری بھی ہے مگر بعض فیصلوں پر لوگوں کو آخری حد تک نہیں جانا چاہیے۔
انہوں نے لکھا کہ عام طور پر لوگ کہتے ہیں کہ یا تو کوئی شخص قدامت پسند ہوتا ہے یا پھر وہ لبرل ہوتا ہے لیکن لوگ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ کوئی درمیانہ روی بھی اختیار کر سکتا ہے اور وہ اس بات کی قائل ہیں کہ انسان کو درمیانہ روی اختیار کرنی چاہیے۔
انہوں نے لکھا کہ کسی بھی شخص کو کوئی فیصلہ کرتے وقت اپنے ہوش و حواس سے کام لینا چاہیے، دوسروں کی باتوں میں آکر کوئی فیصلہ نہ کرے، اگر کسی کو موسیقی ہر وقت حرام کرتی ہے تو ممکن ہے اس کے لیے وہ ممنوع ہو لیکن اگر کسی کے لیے وہ راحت ہے تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں۔