سیلاب کی تباہی سے متاثر وہ نو عمر لڑکیاں جن پر ہم بات نہیں کرتے
نوعمر بچیوں کے جذبات کی ترجمانی پروین شاکر کے اس شعر سے بہتر نہیں کی جاسکتی، مگر ان بچیوں کے لیے کیا کہا جائے جن کے ہونٹوں کو ہنسی اور آنکھوں کو کاجل بھی میسر نہیں، وہ اپنا دکھ کیسے بتائیں۔
ثمینہ پنھور بھی ایک ایسی ہی بچی ہے جس کی عمر 12، 13 سال سے زیادہ نہیں ہوگی۔ وہ یونین کونسل کمال خان، تعلقہ جوہی کی رہائشی ہے اور دیگر سیلاب زدگان کے ساتھ ایف پی (Flood Protection) بند پر ایک چھپر کے نیچے پچھلے 3 ماہ سے مقیم ہے۔
ثمینہ کا نقاہت زدہ چہرہ اور آنکھوں میں کھنڈی زردی اس کی خراب صحت کو ظاہر کررہی تھی۔ ہمارے بیشتر سوالات کے جواب ثمینہ کی والدہ نے دیے۔
اس کی والدہ نے بتایا کہ ’ثمینہ سیلاب کے بعد بہت تبدیل ہوگئی ہے، وہ اب بہت خاموش رہنے لگی ہے، اسے کیمپ کا ماحول پسند نہیں ہے۔ وہ جلد از جلد اپنے گھر واپس جانا چاہتی ہے‘۔
دیکھنے میں یہ بچی بظاہر خوف اور ذہنی دباؤ کا شکار لگ رہی تھی۔ مزید جاننے پر والدہ نے بتایا کہ ’اس کی پریشانی کی وجہ یہ حالات ہوسکتے ہیں، ہم وہ رات بھول نہیں سکتے جب سیلاب کا پانی اچانک ہمارے گھروں میں داخل ہوا تھا اور پھر کسی نہ کسی طرح ہم اندھیرے میں، پانی میں ڈوبتے ابھرتے صرف اپنی جان بچا پائے تھے‘۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’ثمینہ کی پریشانی کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اسے پہلی بار اپنے ماہانہ نظام سے واسطہ ان بدترین حالات میں پڑا ہے۔ ہم یہاں ایف پی بند پر تیز برستی بارش میں پلاسٹک کی شیٹ کے نیچے پناہ لیے ہوئے تھے۔ ایسے میں اس کے ماہانہ نظام کے انتظامات کیسے کیے جاتے۔ مرد بھی سارا دن قریب ہی موجود ہوتے، ظاہر ہے وہ بارش اور چاروں جانب موجود سیلاب کے پانی میں کہاں جاتے۔ یہاں پرائیویسی کا شدید مسئلہ تھا۔ اس کے علاوہ اسے جسم اور خصوصاً سر میں شدید درد ہوتا جو پورا ہفتہ چلتا۔
’ثمینہ سارا دن منہ سر لپیٹ کر پڑی رہتی، کسی سے بات نہ کرتی تاوقتیکہ وہ کڑا ہفتہ گزر جاتا۔ 3 ماہ اسی طرح گزر گئے ہیں، زندگی بس اتنی بہتر ہوسکی ہے کہ اب بارشیں نہیں ہیں، سر چھپانے کے لیے کسی نے ٹینٹ دے دیا ہے اور مرد بھی محنت مزدوری کرنے چلے جاتے ہیں۔ باقی مسائل اور بے گھری کا عذاب جوں کا توں ہے‘۔
پاکستان 2022ء میں شدید اور طویل مون سون کے نتیجے میں آنے والے خوفناک سیلاب کے اثرات جھیل رہا ہے۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے اعداد و شمار کے مطابق سیلاب سے سوا 3 کروڑ سے زیادہ آبادی متاثر ہوئی ہے اور 10 لاکھ سے زیادہ گھر منہدم ہوگئے ہیں جبکہ 1400 لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ملک کے 85 اضلاع میں سے سندھ کے 28 اضلاع متاثر ہوئے ہیں اور سندھ کے تقریباً ڈیڑھ کروڑ افراد بے گھری کا عذاب جھیل رہے ہیں۔ وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمٰن کے مطابق ملک کا 3 چوتھائی حصہ پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ اور یہ سچ بھی ہے۔
چند روز قبل جب ہم دادو اور جوہی پہنچے تو حالات جوں کے توں تھے۔ 3 ماہ سے یہ شہر اسی طرح پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ دادو کے چھندر موری علاقے سے ہم ایک کشتی کے ذریعے جوہی کے سیلاب متاثرین تک پہنچے جو ایف پی بند پر 3 ماہ سے پناہ گزین ہیں۔ کسی تنظیم نے کچھ ٹینٹ عطیہ کیے تھے مگر گرمی کی شدت میں یہ ٹینٹ زیادہ کارآمد نہیں تھے کیونکہ اکتوبر کے آخری ہفتے میں بھی درجہ حرارت 37 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچا ہوا تھا اور ٹینٹ دھوپ میں شدید گرم ہوچکے تھے۔
دوپہر میں وہاں صرف خواتین ہی نظر آرہی تھیں (مرد محنت مزدوری کی تلاش میں شہروں کی طرف نکلے ہوئے تھے)۔ وہ عارضی چھپروں میں چارپائی بچھا کر بیٹھی ہوئی تھیں جو دھوپ سے بچاؤ کا کام بھی کررہی تھیں۔ ان میں ہوا کا گزر بھی ہورہا تھا تو کچھ ٹھنڈک تھی۔ چند خواتین کپڑے دھو رہی تھیں اور کچھ دیگر کام کررہی تھیں۔
سیلاب میں بے گھر ہونے والوں کا کوئی ایک مسئلہ نہیں ہے، بے گھری کے عذاب کے ساتھ 3 وقت کا کھانا، بیت الخلا کی سہولت، علاج معالجہ اور خواتین کا ایک بہت اہم اور سنگین مسئلہ جس پر عام حالات میں بھی بات نہیں کی جاتی وہ ہے ماہواری۔ اس بے گھری اور بے سرو سامانی کے حالات میں رات کے اندھیرے میں گھروں سے نکلنا پڑے تو ایسے میں ماہواری کا انتظام کیسے کیا جائے۔ خصوصاً وہ نوعمر بچیاں جن کے لیے یہ سب کچھ نیا اور باعثِ شرم ہے، وہ اس حوالے سے شدید خوف کا شکار تھیں۔
اس حوالے سے جب بچیوں سے بات کی گئی تو انتہائی پریشان کن معلومات سامنے آئیں۔ سب سے بڑا مسئلہ پرائیویسی تھا۔ مرد قریب ہی موجود ہوتے۔ پھر ٹوائلٹ کی عدم موجودگی، استعمال کی مخصوص اشیا کی عدم دستیابی اور پھر ان کا تلف کرنا اور اس کے لیے اندھیرا ہونے کا انتظار کرنا کسی اذیت سے کم نہیں۔ پھر نئی جگہوں پر دُور جاتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے۔ مسائل کا ایک انبار تھا جو خواتین اور لڑکیوں نے سامنے رکھ دیا۔
رحمیہ پنھور ایک بین الاقوامی ادارے واٹر ایڈ پاکستان کی صوبائی کوآرڈینیٹر ہیں۔ ان کا ادارہ 2006ء سے پاکستان میں پینے کے صاف پانی تک رسائی، بہتر نکاسی آب اور صحت و صفائی (Water, Sanitation and Hygiene) کے شعبوں میں کام کررہا ہے۔ خواتین کے ماہانہ مسائل کے حوالے سے بھی یہ مختلف علاقوں میں کام کرتے ہیں۔
رحیمہ کا کہنا ہے کہ ’کسی بھی قدرتی آفت میں خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں اور خصوصاً نوعمر بچیوں کے لیے حالات زیادہ مشکل ہوجاتے ہیں۔ ناخواندگی، صحت و صفائی کے حوالے سے معلومات کی کمی اور روایتی شرم و حیا کے باعث خواتین ماہواری پر بات نہیں کرتیں لہٰذا اس حوالے سے سنگین طبّی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہم سیلاب متاثرہ خواتین میں آگاہی سیشن منعقد کرتے ہیں جہاں تمام مسائل پر کُھل کر بات کی جاتی ہے۔ انہیں تمام باتیں جزیات کے ساتھ سمجھائی جاتی ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ واٹر ایڈ انہیں ہائی جین کٹ بھی فراہم کررہا ہے جس میں صحت و صفائی کے حوالے سے تمام ضروری سامان موجود ہوتا ہے‘۔
رحیمہ کے مطابق اس ادارے ہی کوششوں سے اب ضلع مظفر گڑھ اور ضلع ٹھٹہ کا تعلقہ میرپور ساکرو کھلی جگہوں پر رفع حاجت کی بُری عادت سے پاک یعنی Open Defecation Free ہوچکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارا ادارہ، سندھ کے 3 اضلاع یعنی ضلع بدین، جامشورو اور دادو میں جوہی میں کام کررہا ہے۔ ہم ہر ضلع میں ایک ہزار خاندانوں کو پینے کے لیے صاف پانی، عارضی ٹوائلٹس اور صفائی کے لیے ہائی جین کٹ بھی فراہم کررہے ہیں۔ ضلع بدین کے تعلقہ ٹنڈو باگو کے ایک گاؤں خاصخیلی اور تعلقہ شہید فاضل راہو کے 2 ہزار 190 خاندانوں کی مدد کررہے ہیں جو کراچی جانے والی سڑک پر بیٹھے ہوئے ہیں کیونکہ ان کے گھر سیلاب میں ڈوب گئے تھے۔ ان کا سب سے بڑا مسئلہ ٹوائلٹ اور پرائیویسی تھا لہٰذا انہیں 85 عارضی ٹوائلٹ فراہم کیے گئے اور وہاں موجود تمام خواتین کو آگاہی سیشن اور ہائی جین کٹس بھی فراہم کیں‘۔
سیلاب متاثرین میں بہت سے ادارے ماہواری کے لیے پیڈز اور دیگر سامان فراہم کرتے ہیں لیکن معلومات یا عادت نہ ہونے کے باعث یہ اشیا ضائع ہوجاتی ہیں۔ زیادہ تر خواتین کا یہی کہنا تھا کہ انہیں ان جدید اشیا کے استعمال کی عادت نہیں ہے، وہ پرانے کپڑے استعمال کرنے کو ہی ترجیح دیتی ہیں۔ ان اشیا کو کیسے محفوظ طریقے سے تلف کیا جائے یہ بھی ایک بڑا سوال تھا۔
ایف پی بند پر موجود ایک اور 13 سالہ بچی شازیہ سولنگی سے ہماری ملاقات ہوئی جو یونین کونسل کمال خان، ضلع جوہی کی رہائشی ہے۔ اس خاندان کی بھی یہی کہانی ہے کہ وہ بس اپنی اور بچوں کی جان بچا کر خالی ہاتھ نکل آئے تھے۔
شازیہ کا بھی وہی مسئلہ تھا کہ اسے پہلی بار ماہواری کا مسئلہ اس بے گھری کی حالات میں پیش آیا۔ اس کی ماں نے بتایا کہ ’ہم غریب لوگ پیڈز وغیرہ تو استعمال نہیں کرتے ہیں اور نہ ہمیں اس کا استعمال آتا ہے، ہم گھر میں پھٹے پرانے کپڑے استعمال کرلیتے تھے لیکن یہاں وہ کپڑے بھی موجود نہیں تھے۔ بہرحال کسی نہ کسی طور انتظام کرلیا ہے‘۔ جب ہم نے پوچھا کہ ان استعمال شدہ کپڑوں کا وہ کیا کرتی ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ ’ہم دوبارہ استعمال کے لیے دھو کر رکھ لیتے ہیں‘۔
’لیکن کہاں دھوتے ہیں؟‘ ہمارے اس بے اختیار سوال کا جو جواب ملا اس نے ہمارے چودہ طبق روشن کردیے، شازیہ کی والدہ نے بتایا کہ ’یہ جو سامنے سیلاب کا پانی کھڑا ہے اسی میں دھوتے ہیں‘۔
واضح رہے کہ جس سیلابی پانی میں یہ خواتین اپنے گندے، آلودہ کپڑے دھوتی ہیں، اسی پانی میں نہاتی بھی ہیں، جانور بھی یہی پانی پیتے ہیں، گھریلو استعمال کے لیے بھی یہی پانی استعمال ہوتا ہے اور کہیں کہیں پینے کے لیے بھی۔ یہ پانی کتنا آلودہ ہے اور صحت کے لیے کتنا مضر ہوگا یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔
رحیمہ پنھور نے اس حوالے سے بتایا کہ ’ہم خواتین کو مخصوص اشیا کے استعمال کے بعد محفوظ طریقے سے تلف کرنا بھی بتاتے ہیں۔ اگر متاثرہ خواتین اور بچیاں کسی اسکول یا کالج کے کیمپ میں ہیں تو وہاں کچرا دان موجود ہوتے ہیں لیکن اگر یہ کسی عارضی کیمپ میں بیٹھی ہیں تو زمین میں گڑھا کھود کر آلودہ اشیا کودبا دینا کسی حد تک محفوظ طریقہ ہے‘۔
14 سالہ پروین لُنڈ جو تحصیل جوہی کی ہی رہائشی ہیں، 9ویں جماعت کی طالبہ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’سب سے بڑا مسئلہ پرائیویسی کا ہے۔ دُور دُور تک کھلا علاقہ ہے، نہانا، کپڑے دھونا اور تبدیل کرنا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس لیے ضرورت ہونے کے باوجود کئی کئی دن تک کپڑے تبدیل کرنے کی نوبت نہیں آتی، ماہواری میں بھی یہی حال ہوتا ہے‘۔
اسی طرح ایک اور بچی حفیظاں تھی، اس کی ماں نے بتایا کہ ’شاید پریشانی کے باعث اس کی بچی کا ماہانہ نظام ڈسٹرب ہوگیا ہے۔ پہلے اس کا یہ نظام باقاعدہ تھا لیکن اب 3 ماہ سے ماہواری نہیں آئی‘۔
ہیلتھ ورکر ثمینہ سمیجو ’بہتر زندگی سینٹر، دادو‘ سے وابستہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’سیلاب متاثرین میں خواتین، خصوصاً نوعمر بچیوں کے ماہانہ نظام کے حوالے سے بہت مسائل ہیں۔ خواتین اس حوالے سے بات نہیں کرتیں۔ مسائل کو روایتی شرم کی وجہ سے لیڈی ڈاکٹر سے بھی بیان نہیں کرتیں، انہیں بہت کریدنا پڑتا ہے تب اصل صورتحال معلوم ہوتی ہے‘۔
انہوں نے بتایا کہ ایک کیمپ کے دورے میں انہیں ایک 12، 13 سال کی چھوٹی بچی بیمار نظر آئی، ’ماں نے ٹال دیا کہ کچھ نہیں ہلکا سا بخار ہے لیکن مجھے اس کی حالت زیادہ خراب لگ رہی تھی۔ تب میں نے اردگرد کے تمام مردوں کو وہاں سے ہٹایا اور معائنہ کیا تو معلوم ہوا کہ بچی شدید بلیڈنگ سے بے حال تھی اور اگر اسے طبّی امداد نہیں دی جاتی تو جان کا خطرہ تھا۔ میں نے اسے میڈیکل سینٹر بھجوایا جہاں اس کا علاج کیا گیا‘۔
ثمینہ کا کہنا تھا کہ یہ صرف ایک واقعہ تھا، ایسے کئی واقعات وہ پچھلے 3 ماہ میں دیکھ چکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’چھوٹی عمر کی بچیوں کے لیے یہ حالات بہت مشکل ہیں۔ خوف اور پریشانی میں ان کا ماہانہ نظام ڈسٹرب بھی ہوسکتا ہے۔ کچھ بچیوں کا وقت سے پہلے شروع ہوسکتا ہے جبکہ کچھ لڑکیوں کا بے قاعدہ ہوجاتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ نظام وقتی طور پر رک جائے۔ صفائی نہ ہونے اور گندے کپڑے پہنے رہنے سے بہت سی بیماریوں کے ساتھ پیشاب کی نالی کے انفیکشن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے‘۔
رحیمہ نے بھی ثمینہ سیجو کی بات کی تائید کی کہ معاشرتی روایات اور ثقافتی بندشوں کے باعث خواتین اپنے مسائل پر کھل کر بات کرنے سے گریز کرتی ہیں اس کے نتیجے میں انہیں صحت کے بے شمار مسائل لاحق ہوجاتے ہیں جن میں سب سے بڑا مسئلہ ان کے ماہانہ نظام میں کسی بھی طرح کا بگاڑ ہے۔ نوعمر بچیوں میں یہ مزید خطرناک ہوجاتا ہے۔ ہمیں اس حوالے سے زیادہ سے زیادہ آگاہی دینے کی ضرورت ہے شاید اس شر (سیلاب) سے یہی خیر کا پہلو نکل سکے۔
تبصرے (1) بند ہیں