’پاکستان ہمارے لوگوں کی صلاحیتوں اور عزائم کا قبرستان ہے‘
میں نے گزشتہ سال ایک ٹیڈ ایکس ٹاک میں کہا تھا کہ پاکستان کو اسلامک ری پبلک کے بجائے ون پرسنٹ ری پبلک [ایک فیصد لوگوں کا ملک] کہنا چاہیے۔
یہاں پر مواقع، اختیار اور دولت سب کچھ ایک فیصد افراد تک محدود ہے۔ دیگر کو ایسے مواقع ہی دستیاب نہیں کہ وہ کامیاب ہوسکیں۔ یوں پاکستان کی معیشت کا دارومدار صرف ان چیزوں پر ہوتا ہے جو ملک کی اشرافیہ حاصل کرتی ہے۔ یہ معیشت اس وجہ سے ترقی نہیں کرتی کیونکہ ملک کی اکثریت کی صلاحیتوں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔
فرض کریں کہ ہم کرکٹ ٹیم میں شمولیت کے لیے صرف ان کھلاڑیوں کا انتخاب کریں جو نومبر کے مہینے میں پیدا ہوئے ہوں۔ ظاہر ہے کہ اس طرح ہم ایک کمزور ٹیم تیار کریں گے کیونکہ اس کا انتخاب صرف 2 فیصد آبادی سے ہوگا۔ اگر ایسا ہوتا تو ہماری ٹیم ناجانے کتنے ہی بہترین کھلاڑیوں کی صلاحیتوں سے بھی فائدہ نہ اٹھا پاتی جو ماضی میں گزرے۔ بالکل اسی طرح کی صورتحال بااختیار لوگوں کے انتخاب میں بھی ہوگی اور جس طرح ہماری ٹیم ہارتی رہے گی اسی طرح ہم بحیثیت قوم بھی ہارتے رہیں گے۔
رواں سال تقریباً 40 لاکھ پاکستانی بچے 18 سال کی عمر کو پہنچیں گے۔ ان میں 25 فیصد سے بھی کم انٹرمیڈیٹ کریں گے اور 30 ہزار کے قریب او/ اے لیول کریں گے۔ 30 لاکھ سے زیادہ یا 75 فیصد بچے 12 سالہ تعلیم بھی مکمل نہیں کرسکیں گے۔ (پاکستان میں تقریباً نصف بچے اسکول نہیں جاتے)۔ اے لیول کرنے والے 30 ہزار بچے ہماری بہترین یونیورسٹیوں میں غالب رہیں گے۔ ان میں سے کئی بیرونِ ملک تعلیم حاصل کریں گے اور رہنما بن جائیں گے۔ یہ 18 سال کی عمر کے تمام افراد کا ایک فیصد سے بھی کم بنتے ہیں۔ یہی وہ پاکستانی ہیں جن کے لیے پاکستان کام کرتا ہے۔ لیکن معاملہ مزید خرابی کی جانب جارہا ہے۔
مزید پڑھیے: بڑا ڈاکا یا کچھ اور؟ آخر یہ غریبوں کا پیسہ جاتا کہاں ہے
پاکستان میں تقریباً 4 لاکھ اسکول ہیں مگر اس کے باوجود کئی سالوں سے ہمارے سپریم کورٹ کے جج حضرات اور کابینہ اراکین کی نصف تعداد صرف ایک اسکول سے آتی ہے اور وہ ہے ایچیسن کالج لاہور۔ کراچی گرامر اسکول بے شمار چوٹی کے پروفیشنلز اور امیر ترین کاروباری افراد تیار کرتا ہے۔ اگر ہم 3 امریکی اسکولوں، کیڈٹ کالج حسن ابدال اور چند مہنگے نجی اسکولوں کے طلبہ کی تعداد جمع کرلیں تو وہ شاید 10 ہزار کے قریب بنے گی۔ ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ بچوں کی یہ قلیل تعداد مستقبل میں پاکستان کے اندر مختلف شعبوں میں اہم ترین عہدوں پر ہوں گے، بالکل ویسے ہی جیسے آج ان کے والد اہم عہدوں پر ہیں۔
50 سال قبل ڈاکٹر محبوب الحق نے ان 22 خاندانوں کی نشاندہی کی تھی جو تمام لسٹڈ مینوفیکچرنگ کے دو تہائی اور بینکنگ اثاثوں کے 80 فیصد کو کنٹرول کرتے ہیں۔ یہ دولت کے غیر معمولی ارتکاز کی نشاندہی کرتا ہے۔ آج ہم بھی ایسے کتنے ہی خاندانوں کی نشاندہی کرسکتے ہیں جو قومی دولت کے خاطر خواہ حصے کو کنٹرول کرتے ہیں۔
دولت کا ارتکاز صرف پاکستان میں نہیں ہوتا بلکہ یہ پوری دنیا میں ہی ہوتا ہے اور ترقی پذیر ممالک میں تو خاص طور پر ہوتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ڈاکٹر محبوب الحق کی جانب سے کی گئی نشاندہی کے بعد بھی تقریباً وہی خاندان ہیں جو آج بھی دولت کو کنٹرول کرتے ہیں۔
ایک کامیاب معیشت نئے کاروباری لوگوں کو جگہ دیتی ہے جو نئی اور ابھرتی ہوئی صنعتوں اور ٹیکنالوجیز کی نمائندگی کرتے ہیں اور امیر ترین بن جاتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا، یہاں تو اختیار اور مواقع صرف اس اشرافیہ تک محدود ہیں جو کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔
آپ امریکا کے بڑے کاروباری افراد جیسے بل گیٹس، مارک زکربرگ اور جیف بیزوس وغیرہ کو دیکھیں تو ان میں سے کوئی بھی اپنے خاندان کی دولت کے بل بوتے پر اس مقام تک نہیں پہنچا۔ اگر ماضی کی بات کی جائے تو کارنیگی اور راکیفیلر اب تجارت اور کاروبار پر غلبہ نہیں رکھتے۔ اگر ماضی قریب کے سابق امریکی صدور کو دیکھیں تو رونلڈ ریگن کے والد ایک سیلزمین تھے، بل کلنٹن کے والد ایک شرابی تھے اور باراک اوباما کی پرورش ان کی والدہ نے اکیلے کی تھی۔ لیکن یہاں پاکستان میں ہر پاکستانی کی کامیابی کے پیچھے اس کے والد کی حیثیت اور مقام ہوتا ہے۔
پاکستان میں ڈاکٹر کا بچہ ڈاکٹر، وکیل کا بچہ وکیل اور عالم دین کا بچہ عالم دین ہی بنتا ہے۔ یہاں تک کہ گلوکاروں کے بھی گھرانے ہی ہوتے ہیں۔ یہاں ایسے کئی کاروباری، سیاسی، عسکری اور بیوروکریٹک گھرانے موجود ہیں جہاں کئی نسلوں سے سیٹھ، سیاستدان، جنرل اور اعلیٰ افسران پیدا ہوتے رہے ہیں۔ ایسے معاشرے میں ڈرائیور کا بیٹا ڈرائیور، کسی جمعدار کا بیٹا جمعدار اور ایک نوکرانی کی بیٹی نوکرانی بننے تک ہی محدود رہتی ہے۔
مزید پڑھیے: کیریئر کاؤنسلنگ: ’اسکوپ فیلڈ کا نہیں انسان کا ہوتا ہے‘
ہمارے چوٹی کے کاروباری افراد اور دیگر پروفیشنلز صرف انگریزی میڈیم پڑھی لکھی شہری اشرافیہ سے ہی تعلق رکھتے ہیں، ان میں خاص طور پر ان 2 اسکولوں کے لوگ ہوتے ہیں جن کا اوپر ذکر آچکا ہے۔ عام لوگ جن 2 بااثر شعبوں میں جاسکتے ہیں وہ بیوروکریسی اور فوج ہیں۔ لیکن ان شعبوں کا نظام بھی کچھ ایسا ہے کہ جب لوگ یہاں اعلیٰ عہدوں پر پہنچ جاتے ہیں تو ان کا طرزِ زندگی بھی اشرافیہ جیسا ہوجاتا ہے اور وہ بالکل نوآبادیاتی دور کے گورا صاحب بن جاتے ہیں اور یوں وہ بٹ مین، نائب قاصد اور نوکرانیوں جیسے عام لوگوں کی زندگیوں سے بالکل کٹ جاتے ہیں۔
سیاسی قوت بھی سیاسی جماعتوں میں نہیں بلکہ سیاسی شخصیات میں ہوتی ہے۔ پاکستان میں سوائے ایک مذہبی سیاسی جماعت کے یہاں کوئی جماعت ایسی نہیں جس کے سربراہ کو تبدیل کیا گیا ہو۔ یہاں مقامی سطح تک کی سیاست بھی شخصیات کی بنیاد پر ہوتی ہے، یہاں سیاستدان ان ’الیکٹیبلز‘ گھرانوں سے آتے ہیں جہاں ماضی میں والد اور دادا بھی منتخب ہوتے رہے ہوں۔
آخر اس بات میں کسی قسم کی حیرانی کیوں ہے کہ پاکستان کو کوئی نوبیل انعام نہیں ملا؟ ہم اپنے ایک فیصد سے بھی کم بچوں کو ہی صحیح طریقے سے تعلیم دیتے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں کہ ہمارے پاس پاس باصلاحیت اور ذہین لوگ نہیں، بالکل ہیں لیکن ہمارے اکثر ذہین بچے اسکول نہیں جاتے۔ ان میں اتنی صلاحیت موجود ہوتی ہے کہ وہ ماہرِ طبعیات اور ماہرِ معاشیات کے طور پر کام کرسکتے ہیں لیکن وہ کسی نوکر یا دھوبی کے طور پر کام کررہے ہوتے ہیں۔ پاکستان ہمارے لوگوں کی صلاحیتوں اور عزائم کا قبرستان ہے۔
یونیسیف کے مطابق پاکستان میں 5 سال سے کم عمر 40 فیصد بچے جسمانی نشو نما میں ٹھہراؤ کا شکار ہیں (جو مسلسل غذائی قلت کا اشارہ ہے)، 18 فیصد وزن کی کمی کا شکار ہیں (جو غذائی قلت کی وجہ سے وزن میں تیزی سے ہونے والی کمی کا اشارہ ہے) جبکہ 28 فیصد بچوں کا وزن معمول کے وزن سے کم ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمارے 86 فیصد بچے اکثر راتوں کو بھوکے ہی سوتے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں یہ وہ بچے ہیں جو اپنی 5ویں سالگرہ سے قبل موت کے خطرے سے سب سے زیادہ دوچار ہیں۔ یہ ہے ہماری حقیقت۔
مزید پڑھیے: دنیا میں افرادی قوت کی کمی اور پاکستانیوں کے لیے امکانات
اگر آپ سوشل کلبوں اور گالف کلبوں کے رکن ہیں تو آپ کے لیے پاکستان بہت اچھا ہے لیکن اگر آپ کوئی بھوک کے ستائے بچے ہیں، غریب ہاری ہیں، مدرسے کے طالب علم ہیں، روز کی دیہاڑی کمانے والے ایک والد ہیں یا دوسروں کے بچے پالنے والی آیا ہیں تو اس ملک میں آپ کو بہت مشکل ہوگی۔ پاکستان متوسط طبقے کے خاندانوں کے لیے نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں عدم اطمینان غالب رہتا ہے۔
یہاں کامیابی کی اصل بنیاد آپ کے والد کی حیثیت ہے، آپ کی ذہانت اور آپ کا کام کرنے کا طریقہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ ہاں کچھ لوگ اشرافیہ کا حصہ بننے میں کامیاب ہوجاتے ہیں لیکن وہ لوگ دراصل اس اصول کو ثابت ہی کرتے ہیں۔
اس پورے رجحان کی وجہ سے دولت ایک سے دوسری نسل تک منتقل ہوتی ہے اور دیگر لوگ اس میں شامل نہیں ہوتے۔ یہی چیز پاکستانی کو غریب رکھے ہوئے ہے اور یہی وجہ ہے کہ اشرافیہ میں دولت کے ارتکاز کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہمیں بحیثیت قوم ترقی کرنی ہے تو ہمیں ایک نیا معاشرتی نظام تیار کرنا ہوگا۔
یہ مضمون 10 نومبر 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
تبصرے (17) بند ہیں