’واہی‘ سے ’صفِ اول‘ تک: ’اِٹ ہیپنز اونلی اِن پاکستان‘ کے 5 برس پر ایک نظر
اِٹ ہیپنز اونلی اِن پاکستان ڈان ڈاٹ کام اور ڈوئچے ویلے (ڈی ڈبلیو) کی جانب سے چار سال قبل شروع کیا گیا فلم سازی کا مقابلہ ہے۔ اس کا مقصد ان ابھرتے ہوئے فلم سازوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے جو پاکستان کے ان دیکھے پہلوؤں کو منظر عام پر لاتے ہیں۔ رواں سال اس مقابلے کو 5 سال مکمل ہورہے ہیں اور اس مرتبہ مقابلے کے موضوعات میں پاکستانی پکوان، موسیقی اور رقص، ثقافتی مقامات اور فطری حسن اور ماحول شامل ہیں۔
مقابلے میں پہلے، دوسرے اور تیسرے نمبر پر آنے والی فلموں میں بالترتیب 6 لاکھ، ساڑے 3 لاکھ اور ڈھائی لاکھ روپے تقسیم کیے جائیں گے جبکہ دو فلموں کو ڈیڑھ، ڈیڑھ لاکھ روپے کے خصوصی انعامات دیے جائیں گے۔
لیکن اس سے پہلے کہ ہم رواں سال موصول ہونے والی فلموں کا تذکرہ کریں ہم اس مقابلے کے 5 سال پورے ہونے پر گزشتہ 4 مقابلوں میں جیتنے والی فلموں کا تعارف پیش کررہے ہیں۔
2021ء
موضوع: ہیروز آف پاکستان
پہلا انعام: صفِ اول
کیپچر کریو اسٹیوڈیوز کے محمد عفان یوسف اور ریحان ظفر کی فلم
’صفِ اول‘ میں اشفاق احمد نامی ایک فرنٹ لائن ورکر کو دکھایا گیا ہے جوکہ کورونا سے متاثرہ مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے تیار ہونے والے اولین پیرامیڈکس میں سے ایک تھا۔ یہ فلم وبائی مرض اور خود اپنی بیماری کے دوران فرض شناسی کی کہانی ہے۔
دوسرا انعام: ہماری رابعہ
اطہر بلال فلمز کے خواجہ اطہر عباس اور خواجہ بلال عباس کی فلم
یہ کہانی رابعہ نامی فٹبال چیمپیئن کی ہے جو بڑے خواب دیکھتی ہے اور اپنے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کو عبور کرتی ہے۔
اس دستاویزی فلم میں ان تمام مشکلات کو پیش کیا گیا جن کا رابعہ نے اپنی معذوری اورکھیلوں کو اپنا پیشہ بنانے والی خواتین کے حوالے سے معاشرتی رویوں کے باعث سامنا کیا۔ رابعہ کی کہانی ان افراد کے لیے بھی ایک تحریک ہے جو اپنے خوابوں کی تکمیل چاہتے ہیں۔
تیسرا انعام: انڈس ویمن
میڈ ان فلمز کے ہالار کھوسو، عمران علی اور عزیر شاہ کی فلم
’ہالار‘ کھوسو کی فلم ایک خاتون کی اپنی برادری کے نوجوانوں کو وہ سب کچھ فراہم کرنے کے عزم کو اجاگر کرتی ہے جس سے وہ خود محروم تھیں۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ سندھ کی باگڑی برادری کے پسماندہ افراد کے لیے زندگی کیسی ہوتی ہے۔ یہ فلم اس بات کو واضح کرتی ہے کہ اپنی عمر، ازدواجی حیثیت یا سماجی و اقتصادی پس منظر سے قطع نظر ایک مضبوط عورت اپنے آس پاس کے لوگوں کو بااختیار بنانے کے لیے کیا کچھ کرسکتی ہیں۔
بےبی باگڑی بھی اپنی برادری میں ایک تبدیلی لانا چاہتی تھیں اور ان کا یہی عزم تھا جس کے تحت انہوں نے ایک ایسی جگہ اسکول اور تربیتی مرکز قائم کیا جہاں غربت کے ماروں اور بے سہارا لوگوں سے کوئی ہمدردی نہیں کرتا۔
اس مقابلے میں دو فلموں کو ایک، ایک لاکھ روپے کے خصوصی انعامات سے بھی نوازا گیا۔
راؤڈی
ایس خرم علی فلمز کے ایس خرم علی، سحر علی، سید خرم علی، مرینہ سید، علی ساحل، ایم یاسر، محمد امین، سید شہروز اور غلام محمد میر کی فلم
یہ فلم ایک نوجوان افغان لڑکی مرینا سید کی بہادری کی کہانی ہے جس نے اپنی قسمت کو اپنے ہاتھ میں لیا اور ایک ایسے معاشرے میں بائیک چلانا سیکھی جہاں صنفی اصولوں کو چیلنج کرنے والی خواتین کو حقیر سمجھا جاتا ہے۔
بہادری اور جذبے کی اس کہانی میں، ایس خرم علی اور ان کی ٹیم اس بات پر روشنی ڈالتی ہے کہ کس طرح ایک لڑکی کا جرأت مندانہ قدم 300 سے زیادہ لڑکیوں کے لیے باہر نکلنے اور آزادی اور خودمختاری کے لیے اپنے ذرائع تلاش کرنے کے لیے ایک تحریک بن گیا۔
بروشسکی
فہد کہوٹ کی فلم، دریگر اراکین: احسن خان اور عامر ہاشمی، احسن خان، عامر ہاشمی
اس فلم میں نہ صرف ہنزہ کی خوبصورت وادی اور پہاڑی سلسلے کو دکھایا گیا ہے بلکہ ان لوگوں کو بھی دکھایا گیا ہے جو لائف لارسن میوزک اسکول کے ذریعے اپنی زبان کے تحفظ اور روایت اور ثقافت کو زندہ رکھ ہوئے ہیں۔ یہ اسکول ہنزہ کے لوگوں کی جانب سے بروشسکی زبان کے تحفظ کے لیے بنایا گیا ہے۔
2020ء
موضوع: کریٹیو ڈسٹینسنگ
پہلا انعام: اَن باؤنڈ بریتھ
ہدایت کار: عمر نفیس
پاکستان میں ڈاکٹر بننا آسان نہیں ہے، خاص طور پر جب آپ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی خاتون ہوں۔ اس فلم میں ڈاکٹر آمنہ بتول ہمیں ایک ڈاکٹر کی زندگی کے معمول بتاتی ہیں، جس دوران وہ اور ان کے ساتھی کورونا وائرس کی وبا کے خلاف فرنٹ لائن پر لڑرہے ہیں۔
دوسرا انعام: نڈر
ہدایت کار: سعد بھٹی اور عدیل قریشی
اس فلم میں ہم اسحٰق خان کی کہانی سنتے ہیں۔ اسحٰق کورونا وبا کے دوران کام کرنے والے گمنام ہیروز میں سے ایک ہیں۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ وہ کس طرح کورونا سے ہلاک ہونے والوں کی میتوں کو تدفین سے قبل غسل دیتے ہیں۔ اس طرح کورونا سے ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ کو بھی تسلی ملتی جو خود میت کے قریب نہیں آسکتے تھے۔
تیسرا انعام: اسٹیئنگ اسٹل
ہدایت کار: ولید اکرم، ابراہیم حسن اور شیخ مبشر
یہ فلم ہمیں پرانے لاہور کے بھاٹی گیٹ لے جاتی ہے جہاں ایک بھائی اور بہن کی جوڑی نے عوام کو کورونا وائرس سے لاحق خطرات کے بارے میں آگاہی دینے کی ذمہ داری اٹھائی اور اپنے راستے میں آنے والی تمام رکاوٹوں کے باوجود ماسک اور سینیٹائزر تقسیم کیے۔
2020ء میں 3 فلموں کو 60، 60 ہزار روپے کے خصوصی انعامات بھی دیے گئے۔
جستجو
ہدایت کار: ہالار کھوسو اور عزیر شاہ
پاکستان میں ملک گیر لاک ڈاؤن کے بعد اسکول اور کاروبار بند ہوگئے تھے کیونکہ کورونا کیسز کی تعداد میں اضافہ ہورہا تھا۔ تب تمثیلہ ملاح اور عبدالقادر اپنی زندگی کے نئے معنی اور نئی سمت تلاش کرتے ہیں۔ وہ یہ پیغام دیتے ہیں کہ کوئی بھی وبائی بیماری زندگی کے دروازے کبھی بند نہیں کرسکتی۔
پاکستان کے ہیرو
اطہر۔بلال فلمز کے اطہر عباس اور بلال عباس کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم
اسلام آباد کی بسم اللہ ٹک شاپ پہلی نظر میں چھوٹی سی دکان لگتی ہے لیکن یہ محلے کے 145 خاندانوں کو راشن، گروسری اور غذائی اشیا فراہم کرتی ہے۔ اس فلم میں ہم ٹک شاپ کے مالک کے بارے میں جانتے ہیں جو کورونا سے متاثرہ کئی خاندانوں کو ذاتی طور پر راشن پہنچا رہا ہے۔ وہ کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں صف اول کے سپاہی کے طور پر کام کرتا، بالکل اسی طرح جیسے کسی ڈاکٹر، نرس یا سیکیورٹی عملے نے کام کیا۔
دی ہیرو ود اِن
ہدایت کار: اوسط علی، فصیح محمد وسیم اور شاہوم ملک
تخلیقی طور پر تیار کردہ اس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ جب کورونا کے دوران سب کچھ رک چکا تھا تو فلم سازوں نے کس طرح نئے شوق دریافت کیے اور نئی مہارتیں سیکھیں۔
2019ء
موضوع: اَوَر ڈائیورس پاکستان
پہلا انعام: سیون ورٹیکل مائیلز
ہدایت کار: علی حیدر، علی بلوچ، حسن ضیا اور ذیشان حیدر
یہ فلم ناظرین کو بلوچستان کی میلوں گہری کوئلے کی کانوں میں لے جاتی ہے۔ یہ کانیں تقریبً 3 ہزار 700 فٹ گہری ہیں اور مزدور روز اپنی جان خطرے میں ڈال کر دستی ریل کارٹ کے ذریعے کانوں میں آتے اور واپس جاتے ہیں۔ اس فلم میں کانوں میں کام کرنے والی ہزارہ برادی کو دکھایا گیا ہے جن کی زندگی زمین کے اوپر اور زمین کے نیچے دونوں جگہ ہی سخت اور مشکل ہے۔
دوسرا انعام: دی ڈسگسٹ فُل
ہدایت کار: ولید اکرم، شیخ مبشر، مریم حسن نقوی اور حماد جاوید
یہ فلم آپ کو لاہور کے ایک خاکروب شریف مسیح کی زندگی کے ایک دن سے گزارتی ہے۔ شریف گزشتہ 35 سال سے لاہور کی گلیوں کی صفائی کر رہے ہیں لیکن وہ اب بھی معاشرے اور اپنے ملک کی طرف سے اس عزت اور اپنے کام کے اعتراف کے منتظر ہیں جس کے وہ حقدار ہیں۔
تیسرا انعام: باکسنگ اگینسٹ آل اوڈز
ہدایت کار: فہد کہوٹ، احسن خان اور سعد عباسی
لیاری سے تعلق رکھنے والی عالیہ سومرو ایک چیمپئن کی طرح باکسنگ کرتی ہیں اور ایک دن پاکستان کے لیے اولمپک گولڈ میڈل جیتنے کا خواب دیکھتی ہیں۔ اس فلم میں ان کے پورے سفر کو بیان کیا گیا ہے جس میں ملک کے دیگر پر عزم کھلاڑیوں کے لیے بہت سےسبق ہیں۔
2019ء میں ہونے والے اس مقابلے میں 2 فلموں کو ایک، ایک لاکھ روپے کے خصوصی انعام سے نوازا گیا۔
منھن میگھ ملہار
ہدایت کار: ہالار کھوسو، عزیر شاہ اور دانیال شاہ
مبارک علی ملاح اس فلم میں گراموفون ریکارڈز کا اپنا مجموعہ دکھاتے ہیں اور ان سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ سندھ کے ضلع بدین سے 20 کلومیٹر دور ترائی نامی ایک چھوٹے سے قصبے میں رہنے والے مبارک ملاح پرانے ریڈیو سیٹ کی مرمت کرتے ہیں اور اس دوران اپنے گراموفون پر چلنے والے پرانے، کلاسک گانوں سے محضوظ ہوتے ہیں۔
نستور
ہدایت کار: سعد علی گل، فاطمہ سعد گل، ماجد چیما، عمار صدیقی اور چاند
اس فلم میں جب عینک والا جن (شہزاد قیصر) 90ء کی دہائی کے اوائل میں پی ٹی وی پر نشر ہونے والے بچوں کے مقبول ڈرامے کے بعد کی اپنی کہانی بیان کرتا ہے تو انسان ماضی میں کھو جاتا ہے۔
2018ء
موضوع:اِٹ ہیپنس اونلی اِن پاکستان
پہلا انعام: واہی
ہدایت کار: ارسلان ماجد، حارث سہگل اور غلام عباس
2018ء میں ہونے والے مقابلے میں پاکستان بھر سے 2 ہزار سے زائد فلمیں موصول ہوئیں جن میں سے فلم واہی کو فاتح قرار دیا گیا۔ اسے کراچی میں مقیم ارسلان ماجد، حارث سہگل اور غلام عباس نے فلمایا ہے۔
واہی میں اقبال مائی نامی خاتون کسان کا ذکر ہے جو اپنی ہمت اور محنت سے دقیانوسی تصورات کو توڑ رہی ہیں۔ اقبال مائی ان خواتین میں شامل ہیں جو پاکستان کی کل زرعی افرادی قوت کا 66 فیصد ہیں۔
دوسرا انعام: ہدایت کار
ہدایت کار: احسن علی، عمار رحمانی، کامی اور بلال
یہ فلم ایک آزاد ہدایت کار ایم ایچ حسینی کے سفر کا احاطہ کرتی ہے۔ ایم ایچ حسینی پیشے کے لحاظ سے ماہی گیر ہیں جنہوں نے اپنے طور پر 14 سے زائد فلمیں تحریر کی ہیں، پیش کی ہیں اور ان کی ہدایت کاری کی ہے۔
ایم ایچ حسینی خود ہی اسکرپٹ لکھتے ہیں، خود ہی لوکیشن تلاش کرتے ہیں اور خود ہی میک اپ اور وارڈروب کا انتظام کرتے ہیں۔ اس فلم میں انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اپنی بہترین فلم صرف 2 ہزار 350 روپے میں بنائی۔
تیسرا انعام: بیک گراؤنڈ
ہدایت کار: فضل احمد اور عبد الباسط
اس فلم میں جانی بابا کی کہانی پیش کی گئی ہے۔ جانی بابا ایک اداکار ہیں جنہوں نے گزشتہ 47 سالوں میں 160 سے زائد پاکستانی فلموں میں معمولی معاون کردار ادا کیے ہیں۔ ان کے تاثرات پہلے ہی منظر سے ناظرین کی توجہ اسکرین کی طرف کھینچ لیتے ہیں۔
2018ء کے مقابلے میں دو فلموں کو ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ کے دو خصوصی انعامات سے نوازا گیا۔
پائل آف مڈ، اونز آف گولڈ
ہدایت کار: عمر نفیس، روحان اظہر اور بلال لطیف
یہ فلم لاہور کی ہیرا منڈی میں کام کرنے والے عارف بھٹی اور ان کے ساتھیوں کی کہانی پیش کرتی ہے جو کہ پرانے لاہور کی گلیوں کی خاک چھانتے ہیں اور کچرے میں سے سونا تلاش کرتے ہیں۔
میر بحر: لارڈ اف دی سیز
ہدایت کار: تیمور رحیم اور وحید علی
اس مختصر فلم میں تیمور رحیم اور وحید علی بتاتے ہیں کہ کس طرح موہنا قبیلے کے لوگ پنی ساری زندگی ہاؤس بوٹس میں گزارتے ہیں۔ جنازوں سے لے کر شادیوں تک ہر کام ان کشتیوں پر ہی ہوتا ہے اور یہ طریقہ کار صدیوں سے چلتا آرہا ہے۔
اس مقابلے کے 5 سال مکمل ہونے پر ڈان ڈاٹ کام اور ڈی ڈبلیو 11 دسمبر کو ایک ڈاکومنٹری فلم فیسٹیول اور ایوارڈ شو کا اہتمام کررہے ہیں۔ اس پروگرام میں پینل ڈسکشن کے لیے فلم ساز سرمد کھوسٹ، ایک انٹرایکٹو سیشن کے لیے پتنگیر، لائیو پرفارمنس کے لیے میوزک بیڈ خماریاں اور دیگر کئی سرپرائز بھی آپ کے منتظر ہوں گے۔
اس مقابلے کے فاتحین کا اعلان بھی اسی پروگرام میں کیا جائے گا۔ مذکورہ پروگرام کے ٹکٹ ٹکٹ والا پر دستیاب ہیں۔ دی کامنز کراچی کی جانب سے یہ پروگرام ڈسٹرکٹ 19 میں دن 3 بجے سے رات 10 بجے تک جاری رہے گا۔