کابل: پاکستانی سفارت خانے پر فائرنگ کا ملزم گرفتار کرلیا گیا، ترجمان طالبان
افغان طالبان حکام نے کہا ہے کہ کابل میں پاکستانی سفارت خانے پر فائرنگ کرنے والے شخص کو گرفتار کرلیا گیا ہے جو کہ داعش کا غیر ملکی رکن ہے۔
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری کردہ بیان میں کہا کہ خصوصی دستوں نے 2 دسمبر کو پاکستانی سفارت خانے پر فائرنگ کرنے والے شخص کو گرفتار کر لیا ہے جو کہ ایک غیر ملکی شہری ہے اور داعش کا رکن ہے۔
ترجمان نے کہا کہ تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ یہ حملہ داعش اور سفاک باغیوں کے درمیان مربوط تھا۔
انہوں نے کہا کہ اس حملے کے پیچھے غیر ملکی جماعتیں ہیں جن کا مقصد دو برادر ممالک افغانستان اور پاکستان کے درمیان عدم اعتماد کی کیفیت پیدا کرنا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ سفارت خانے پر حملے کی مزید تحقیقات کی جارہی ہیں۔
قبل ازیں، غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق طالبان نے کہا کہ کابل میں پاکستانی سفارت خانے پر داعش کا مسلح حملہ نامعلوم غیر ملکی گروہوں کی شراکت سے پاکستان کے ساتھ عدم اعتماد پیدا کرنے کے ارادے سے کیا گیا۔
خیال رہے کہ داعش نے گزشتہ روز ٹیلی گرام میسجنگ سروس پر اپنے ایک منسلک چینل کے ذریعے پاکستانی سفارت خانے پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
پاکستان کے دفتر خارجہ نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ سفارت خانے پر حملے میں پاکستانی سیکیورٹی اہلکار زخمی ہوگیا مگر یہ حملہ ناظم الامور عبید الرحمٰن نظامانی کو نشانہ بنانے کی کوشش تھی تاہم وہ محفوظ رہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کے افغان طالبان کے ساتھ کئی دہائیوں سے اچھے تعلقات رہے ہیں لیکن حال ہی میں مشترکہ سرحد پر سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے تعلقات کشیدہ ہو گئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق طالبان حکام نے کہا کہ حملے میں ملوث ایک شخص کو گرفتار کیا گیا ہے جس کے قبضے سے دو ہتھیار بھی برآمد ہوئے ہیں، تاہم حملہ آور داعش کا غیر ملکی رکن تھا۔
طالبان ترجمان نے کہا کہ حملے کے پیچھے کچھ غیرملکی عناصر ہیں جن کا مقصد برادر ممالک پاکستان اورافغانستان کے درمیان عدم اعتماد پیدا کرنا ہے۔ تاہم انہوں نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ گرفتار ملزم کا تعلق کس ملک سے ہے۔
افغانستان میں داعش نے حالیہ مہینوں میں کابل میں کئی ہائی پروفائل حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے جن میں ستمبر میں روسی سفارت خانے کے باہر خودکش دھماکہ بھی شامل ہے۔
قبل ازیں پاکستان نے کہا تھا کہ دہشت گرد گروپ داعش کی طرف سے کابل میں پاکستانی سفارت خانے پر حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کی رپورٹس کے حقائق کی تصدیق کی جا رہی ہے۔
دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ سفارت خانہ معمول کے مطابق اپنا کام جاری رکھے گا اور کابل سے سفارتی عملے کی واپسی کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
’سفارت خانے پر حملہ‘
رواں ماہ 2 دسمبر کو دفتر خارجہ نے ایک میں بیان میں کہا تھا کہ کابل میں پاکستانی سفارت خانے پر حملہ کیا گیا جہاں ہیڈ آف مشن عبیدالرحمٰن نظامانی نشانے پر تھے مگر وہ محفوظ رہے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے سفارت خانے پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ سفارت خانہ معمول کے مطابق اپنا کام جاری رکھے گا اور کابل سے سفارتی عملے کی واپسی کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
ادھر پاکستان میں افغانستان کے ناظم الامور کو دفتر خارجہ میں طلب کیا گیا اور کابل میں پاکستانی ناظم الامور پر حملے پر شدید احتجاج اور واقعے کی فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
ایک اہلکار کے مطابق عبیدالرحمٰن نظامانی کابل کے کارتِ پروان محلے میں پاکستان مشن کے لان میں چہل قدمی کر رہے تھے کہ دہشت گردوں نے ان پر گولی چلا دی۔
دفتر خارجہ کے مطابق پاکستانی سیکیورٹی گارڈ سپاہی اسرار محمد ناظم الامور کی حفاظت کرتے ہوئے شدید زخمی ہو گئے جن کو بعد میں ہیلی کاپٹر کے ذریعے پشاور منتقل کیا گیا۔
عبیدالرحمٰن نظامانی گزشتہ ماہ کابل میں پاکستانی سفارت خانے پہنچے تھے۔
حالیہ کچھ ماہ میں افغانستان میں کئی بم اور فائرنگ حملے ہو چکے ہیں جن میں سے کچھ کی ذمہ داری کالعدم داعش نے قبول کی ہے۔