مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے او آئی سی، پاک-بھارت مذاکرات کیلئے کوشاں
اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے کہا ہے کہ دیرینہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت کا راستہ تلاش کرنے کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سیکریٹری جنرل او آئی سی حسین ابراہیم طہٰ نے ایوان صدر میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے خیال میں سب سے اہم چیز پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت کا راستہ تلاش کرنا ہے اور ہم اس سلسلے میں پاکستانی حکومت اور دیگر رکن ممالک کے ساتھ مل کر ایک لائحہ عمل پر کام کر رہے ہیں‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسی لیے ہمیں رکن ممالک کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے، ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ سفارتی سطح پر بیشتر معاملات کے حوالے سے بیچ چوراہے پر بات چیت نہیں ہونی چاہیے۔
اس موقع پر آزاد جموں و کشمیر کے صدر بیرسٹر سلطان محمود، وزیراعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس، پاکستانی وزیراعظم کے مشیر برائے امور کشمیر قمر زمان کائرہ، او آئی سی کے رابطہ گروپ برائے کشمیر کے ارکان اور او آئی سی جنرل سیکریٹریٹ کے سینئر حکام بھی موجود تھے۔
حسین ابراہیم طہٰ نے میڈیا کو بتایا کہ انہوں نے حالیہ اجلاس میں وزرائے خارجہ کونسل (سی ایف ایم) کی جانب سے منظور کی گئی قرارداد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے یہ دورہ کیا ہے کیونکہ وہ اصل صورتحال کو خود دیکھنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم یہاں یکجہتی، ہمدردی اور او آئی سی کے عزم کا اظہار کرنے کے لیے آئے ہیں تاکہ اپنے شراکت داروں، عالمی برادری اور رکن ممالک کے تعاون سے بھارت اور پاکستان کے درمیان اس طویل ترین تنازع کا حل تلاش کیا جاسکے’۔
ان کا کہنا تھا کہ کشمیر، او آئی سی کا حصہ ہے، او آئی سی کی اجتماعی اور انفرادی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے گفتگو کرے۔
سیکریٹری جنرل او آئی سی نے بھارت کا کشمیریوں کے حق خودارادیت سے مسلسل انکار، مقبوضہ کشمیر میں جنگی جرائم کے ارتکاب اور ریاستی سرپرستی میں بھارتی مسلمانوں پر مظالم کے باوجود او آئی سی کے کچھ رکن ممالک کی جانب سے بھارت کی غیر معمولی تعریف اور پسندیدگی کے اظہار سے متعلق سوال پر کہا کہ ’او آئی سی میں ہم ان قراردادوں کی بنیاد پر کام کرتے ہیں جو رکن ممالک نے منظور کی ہوتی ہیں، ہم ایک کمیونٹی ہیں تاہم تمام ریاستوں اپنے معاملات میں خودمختاری ہیں‘۔
او آئی سی کے وفد کے لائن آف کنٹرول کے دورے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ اس دورے کے پس منظر میں وزرائے خارجہ کونسل کو ایک جامع رپورٹ پیش کریں گے اور ان سے اس کی روشنی میں مناسب فیصلے لینے کا کہیں گے، بنیادی طور پر یہ فیصلہ وزرائے خارجہ کا ہی ہوگا۔