• KHI: Zuhr 12:25pm Asr 4:48pm
  • LHR: Zuhr 11:56am Asr 4:18pm
  • ISB: Zuhr 12:01pm Asr 4:22pm
  • KHI: Zuhr 12:25pm Asr 4:48pm
  • LHR: Zuhr 11:56am Asr 4:18pm
  • ISB: Zuhr 12:01pm Asr 4:22pm

فوج مخالف بات نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ کرپشن پر ان کےخلاف کارروائی نہیں ہوسکتی، جسٹس منصور

شائع December 13, 2022
سپریم کورٹ نے سماعت کل 14 دسمبر تک ملتوی کردی — فائل فوٹو: اے ایف پی
سپریم کورٹ نے سماعت کل 14 دسمبر تک ملتوی کردی — فائل فوٹو: اے ایف پی

سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ فوج کے خلاف بات نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ کرپشن پر ان کے خلاف کارروائی نہیں ہوسکتی۔

‏سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی درخواست پر ‏چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں ‏جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سیاسی حکمت عملی کے باعث آدھی سے زیادہ اسمبلی نے بائیکاٹ کر رکھا ہے۔

عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایگزیکٹو اپنا کام نہ کرے تو لوگ عدالتوں کے پاس ہی آتے ہیں۔

نیب ترامیم سے فائدہ صرف ترمیم کرنے والوں کو ہی ہوا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نیب ترامیم سے فائدہ صرف ترمیم کرنے والوں کو ہی ہوا ہے، چند افراد کی دی گئی لائن پر پوری سیاسی پارٹی چل رہی ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ لائن فالو کرنے سے فائدہ صرف چند افراد کی ذات کو پہنچتا ہے، نیب ترمیم کی ہدایت کرنے والوں کو اصل میں فائدہ پہنچا، کیا ایسی صورتحال میں عدلیہ ہاتھ پیر باندھ کر تماشا دیکھے؟

جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا ہے کہ نیب ترامیم کو بغیر بحث جلد بازی میں منظور کیا گیا، ترامیم کی نیت ہی ٹھیک نہ ہو تو آگے کچھ اور جاننے کی ضرورت ہی نہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلوں کے باوجود کرپشن ختم نہیں ہو سکی، مسئلہ صرف کرپشن کا نہیں سسٹم میں موجود خامیوں کا بھی ہے، سسٹم میں موجود خامیاں کبھی دور کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمان کا کام ہے کہ سسٹم میں بہتری کے لیے قانون بنائے اور عمل بھی کرائے، صوبے میں 5 ماہ بعد انسپکٹر جنرل (آئی جی) اور 3 ماہ بعد اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) بدل جاتا ہے، ایگزیکٹو فیصلے کرتے وقت قانون پر عمل نہیں کیا جاتا۔

ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں ریکوڈک اور اسٹیل ملز کے فیصلے عدالت نے اچھی نیت سے کیے، حکومت سسٹم کی کمزوری کے باعث منصوبوں میں کرپشن پکڑ نہیں سکی، نیب قانون کے غلط استعمال سے کتنے لوگوں کے کاروبار تباہ ہو چکے ہیں، کرپشن پر کسی صورت معافی نہیں ہونی چاہیے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کرپشن غلط ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ کرپشن نہیں ہونی چاہیے، سوال یہ ہے کرپشن کا سدباب کسے اور کیسے کرنا ہے؟

عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کرپشن ختم کرنا ایگزیکٹو کا کام ہے، اگر ایگزیکٹو اپنا کام نہ کر سکے تو عدالت مداخلت کرتی ہے، عدالت نے ہمیشہ عوامی عہدوں پر کرپشن کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ملک میں بہت سے معاملات میں بہتری بھی آئی ہے، خوش آئند یہ بھی ہے پاکستان میں میڈیا آزاد ہے اور سچ سامنے لاتا ہے۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ پاکستانی میڈیا عالمی رینکنگ میں 180 میں سے 157ویں نمبر پر ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کرپشن کی رینکنگ میں پاکستان اسی نمبر پر ہے جو نیب ترامیم سے پہلے تھا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ نیب ترامیم کے بعد جو رینکنگ جاری ہوگی اس میں پاکستان یقیناً 100 نمبر نیچے جاچکا ہو گا، جب سسٹم تباہ ہو رہا ہو تو عدلیہ مداخلت کرتی ہے۔

انہوں نے سوال پوچھا کہ عدالت کس اختیار کے تحت نیب ترامیم کو مفادات کے ٹکراؤ پر کالعدم قرار دے سکتی ہے؟

خواجہ حارث نے کہا کہ خود کو فائدہ پہنچانے کی قانون سازی کے لیے ’ریگولیٹری کیپچر‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا پھر ہم حالیہ نیب ترامیم کو ’پارلیمنٹری کیپچر‘ کہیں گے؟ عمران خان کے وکیل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹری کیپچر کسی اور معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔

نیب قانون کا اطلاق افواج پاکستان و عدلیہ پر نہیں ہوتا، وکیل عمران خان

عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت کی جانب سے گزشتہ روز پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ نیب قانون کا اطلاق افواج پاکستان پر نہیں ہوتا، فورسز کے ان افسران پر نیب قانون لاگو ہوتا ہے جو کسی سول ادارے میں تعینات ہوں۔

خواجہ حارث نے کہا کہ نیب قانون کا اطلاق عدلیہ پر بھی نہیں ہوتا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ججز کو نوکری سے ہی نکالا جاسکتا ہے، ان سے ریکوری نہیں ہوسکتی۔

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ ماضی میں قرار دے چکی ہے کہ ڈسپلن کے معاملے پر افواج کے خلاف رٹ نہیں ہوسکتی، جس پر جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ رٹ تعیناتی یا تبادلے کے معاملے میں نہیں ہوسکتی، فیصلے میں انفرادی کرپشن پر کسی فوجی افسر کو چھوڑنے کا کہیں ذکر نہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ 2001 میں دیا تھا تب حکومت کس کی تھی؟

وکیل عمران خان نے کہا کہ حکومت جس کی بھی تھی، فیصلہ سپریم کورٹ نے ہی دیا تھا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 25 مساوات کی بات کرتا ہے، کسی کے ساتھ جانبداری نہیں ہونی چاہیے، کسی کو بھی استثنیٰ دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ فوج کے خلاف بات نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ کرپشن پر ان کے خلاف کارروائی نہیں ہوسکتی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ پاک بحریہ کے سابق سربراہ ریٹائرڈ ایڈمرل منصورالحق کو پاکستان لاکر نیب نے کارروائی کی تھی، ماضی میں کئی فوجی افسران کے خلاف کارروائی کی مثال موجود ہے۔

عدالت نے درخواست پر مزید سماعت کل تک ملتوی کر دی۔

نیب ترامیم

خیال رہے کہ رواں سال جون میں مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت اتحادی حکومت نے نیب آرڈیننس میں 27 اہم ترامیم متعارف کروائی تھیں، لیکن صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ان کی منظوری نہیں دی تھی، تاہم اس بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا اور بعد میں اسے نوٹیفائی کیا گیا تھا۔

نیب (دوسری ترمیم) بل 2021 میں کہا گیا ہے کہ نیب کا ڈپٹی چیئرمین، جو وفاقی حکومت کی جانب سے مقرر کیا جائے گا، چیئرمین کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بیورو کا قائم مقام چیئرمین بن جائے گا، بل میں چیئرمین نیب اور بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کی 4 سال کی مدت بھی کم کر کے 3 سال کردی گئی ہے۔

قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکے گا، مزید یہ کہ ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا ہے۔

بل میں کہا گیا ہے کہ اس آرڈیننس کے تحت افراد یا لین دین سے متعلق زیر التوا تمام پوچھ گچھ، تحقیقات، ٹرائلز یا کارروائیاں متعلقہ قوانین کے تحت متعلقہ حکام، محکموں اور عدالتوں کو منتقل کی جائیں گی، بل نے احتساب عدالتوں کے ججوں کے لیے 3 سال کی مدت بھی مقرر کی ہے، یہ عدالتوں کو ایک سال کے اندر کیس کا فیصلہ کرنے کا پابند بھی بنائے گا۔

مجوزہ قانون کے تحت نیب کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ملزم کی گرفتاری سے قبل اس کے خلاف شواہد کی دستیابی کو یقینی بنائے، بل میں شامل کی گئی ایک اہم ترمیم کے مطابق یہ ایکٹ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے شروع ہونے اور اس کے بعد سے نافذ سمجھا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 21 ستمبر 2024
کارٹون : 20 ستمبر 2024