بھارت: ٹریفک حادثے میں لڑکی کی موت، ’گاڑی سے ٹکر کے بعد کئی کلومیٹر تک گھسیٹا گیا‘
بھارتی دارالحکومت دہلی میں نئے سال کی شب نوجوان لڑکی کے قتل کا دلخراش واقعہ پیش آیا جہاں اسکوٹی پر سوار 20 سالہ لڑکی کو گاڑی سے ٹکر مارے جانے کے بعد کئی کلومیٹر تک گاڑی کے نیچے گھسیٹا گیا جس کے نتیجے میں لڑکی کی موت واقع ہوگئی۔
بھارتی نشریاتی ادارے ’این ڈی ٹی وی‘ کی رپورٹ کے مطابق پولیس نے بتایا کہ کار میں 5 آدمی سوار تھے جنہیں گرفتار کر لیا گیا ہے، ورثا نے مقتول لڑکی کے ساتھ ریپ کیے جانے کا بھی دعویٰ کیا ہے، واقعہ دہلی کے علاقے سلطانپوری میں پیش آیا جہاں نئے سال کی تقریبات جاری تھیں۔
پولیس نے بتایا کہ لڑکی کی اسکوٹی گاڑی سے ٹکرائے جانے کے بعد اسے 10 سے 12 کلومیٹر تک گھسیٹا گیا، اس دوران لڑکی کے اعضا گاڑی کے انڈر کیریج میں پھنس گئے۔
مقتول لڑکی کی شناخت ’انجلی‘ کے نام سے ہوئی ہے جو کہ امن وہار کی رہائشی تھی، پسماندگان میں لڑکی کی والدہ، 4 بہنیں اور 2 بھائی شامل ہیں، وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھی، لڑکی کے والد کا چند برس قبل انتقال ہوگیا تھا۔
لڑکی کی والدہ نے ملزمان پر بیٹی کے ریپ کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’اس کے سارے کپڑے کیسے پھٹ سکتے ہیں، جب ہمیں بیٹی کی لاش ملی تو وہ مکمل طور پر برہنہ تھی، میں اس واقعے کی مکمل تحقیقات اور انصاف کا مطالبہ کرتی ہوں‘۔
بھارتی خبر رساں ایجنسی ’اے این آئی‘ کے مطابق پولیس کنٹرول روم کو رات 3 بج کر 24 منٹ پر فون کال موصول ہوئی کہ ایک کار کے نیچے لاش کو گھسیٹتے ہوئے دیکھا گیا ہے، صبح 4 بج کر 11 منٹ پر پولس کو ایک اور کال موصول ہوئی کہ سڑک پر ایک عورت کی لاش پڑی ہے، بعد ازاں پولیس نے چوکیوں پر تعینات افسران کو الرٹ کیا اور گاڑی کی تلاش شروع کی۔
دہلی پولیس کے افسر ہریندر کے سنگھ نے بتایا کہ ’پولیس نے رجسٹرڈ کار نمبر کی مدد سے ملزمان کو گرفتار کرلیا ہے جن کا دعویٰ ہے کہ ان کی کار ایک اسکوٹی سے ٹکرا گئی تھی لیکن وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ وہ اسکوٹی ان کی کار کے ساتھ کئی کلومیٹر تک گھسیٹتی چلی گئی‘۔
گرفتار ملزمان نے دعویٰ کیا کہ واقعے کے وقت کار کی شیشے اوپر چڑھے ہوئے تھے اور کار کے اندر اونچی آواز میں میوزک چل رہا تھا، اس لیے انہیں لاش نظر نہیں آئی اور جب انہیں واقعے کا علم ہوا تو وہ موقع سے فرار ہوگئے۔
پولیس افسر نے مزید کہا کہ ’سوشل میڈیا پر کچھ پوسٹس میں جھوٹا دعویٰ کیا جارہا ہے کہ یہ ریپ کیس ہے، پولیس اس طرح کا مواد پوسٹ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرے گی‘۔
واقعہ کے عینی شاہد ’دیپک داہیا‘ جائے وقوع کے نزدیک ایک کنفیکشنری شاپ کے مالک ہیں، انہوں نے واقعے کو محض حادثہ قرار دیے جانے سے انکار کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’میں نے گاڑی میں سوار ملزمان کو کئی بار روکنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے گاڑی نہیں روکی‘۔
انہوں نے کہا کہ ’تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک وہ لڑکی کی لاش کو 18 سے 20 کلومیٹر تک گھسیٹتے رہے، ملزمان بار بار ایک ہی سڑک پر گاڑی چلاتے ہوئے متعدد یو ٹرن لے رہے تھے‘۔
عینی شاہد نے مزید بتایا کہ ’میں نے اپنی موٹرسائیکل پر گاڑی کا پیچھا کیا، اس دوران میں پولیس سے رابطے میں تھا، تاہم لاش گاڑی سے الگ ہونے کے بعد ملزمان فرار ہو گئے‘۔
سربراہ دہلی کمیشن برائے خواتین سواتی مالیوال نے کہا کہ ’اطلاعات سامنے آرہی ہیں کہ کار میں سوار لڑکے نشے میں دُھت تھے، یہ معاملہ بہت خطرناک ہے، میں اس واقعے کے بارے میں مزید تفصیلات کے لیے دہلی پولیس کو طلب کروں گی، مکمل سچائی سامنے آنی چاہیے‘۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ’پانچوں ملزمان کا شراب ٹیسٹ کیا جا رہا ہے، جانچ کر رہے ہیں کہ واقعے کے واقت ڈرائیور بھی نشے میں دھت تھا یا نہیں‘۔
لیفٹیننٹ گورنر دہلی وی کے سکسینا نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ وہ مجرموں کی بے حسی پر حیران ہیں اور کیس کی تحقیقات کر رہے ہیں۔
واقعے پر شہریوں کی جانب سے شدید غم و غصے کا اظہار کیا جارہا ہے، وزیر اعلیٰ دہلی اروند کیجریوال نے واقعے میں ملوث پانچوں ملزمان کی سزائے موت کا مطالبہ کردیا ہے۔
انہوں نے ہندی میں اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ ’مقتول لڑکی کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ انتہائی شرمناک ہے، مجرموں کو سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے، انہیں پھانسی دی جانی چاہیے‘۔