رحیم یار خان: لغاری قبیلے میں ’پراسرار‘ بیماری سے مزید 8 افراد متاثر
پنجاب کے ضلع رحیم یار خان میں بہرام لغاری کے مزید 8 افراد کو پراسرار بیماری کے باعث شیخ زید میڈیکل کالج ہسپتال منتقل کردیا گیا جبکہ اس سے قبل بچوں سمیت 12 افراد اس بیماری سے موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق بیماری کی علامات اس وقت ظاہر ہوئیں جب ہیلتھ سروس کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر سہیل ارشد رانا کی زیر صدارت کمیٹی تشکیل دی گئی جس کے بعد ڈاکٹر سہیل ارشد نے گاؤں کا دورہ کیا اور رہائشیوں کو معائنہ کیا تھا۔
کمیٹی میں ایڈیشنل ڈائریکٹر ڈاکٹر عمران بشیر، رحیم یار خان ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کے سربراہ ایگزیکٹو افسر ڈاکٹر حسین خان، ایڈیشنل ڈائریکٹر (ایم آئی ایس) ڈاکٹر محسن وٹو، ڈبلیو ایچ او بہاولپور ڈویژن ای پی آئی افسر مفکر میاں شامل تھے۔
انہوں نے گاؤں کا دورہ کیا اور متاثرہ لوگوں کے اہل خانہ سے پوچھ گچھ کی اور متاثرہ افراد کے زیر استعمال کمروں اور اشیا کا معائنہ کیا تاکہ پراسرار بیماری سے جاں بحق 12 افراد کی وجوہات کی تحقیقات کی جاسکیں۔
کمیٹی کے ارکان نے محکمہ لائیو اسٹاک اور پنجاب فوڈ اتھارٹی کی مدد سے کھانے، جانوروں کے چارے اور مویشیوں کے نمونے حاصل کیے ۔
نمونے حاصل کرنے کے بعد ہیلتھ سروس کے ڈائریکٹر جنرل کو 3 دن کے اندر رپورٹ جمع کرانے میں مدد ملے گی۔
مقامی ذرائع کے مطابق ڈبلیو ایچ او کے رکن ڈاکٹر مفکر میاں نے متضاد رائے دیتے ہوئے کہا کہ میننگو انسیفلائٹس (meningoencephalitis) یا دماغی سوزش کی وجہ سے 12 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
اس پیچیدہ بیماری ’میننگوانسیفیلائٹس‘ کی وضاحت کرتے ہوئے امریکا کی جان ہاپکنز میڈیسن کا کہنا ہے کہ میننجز دماغ کو ڈھانپنے والے باریک ٹشوز کی تہہ ہیں، اگر ان ٹشوز میں انفیکشن ہوجائے تو اسے مننجیٹائز کہا جاتا ہے، جب دماغ میں سوجن یا انفیکشن ہو جائے تو اس مسئلے کو انسیفلائٹس کہتے ہیں، اگر کسی شخص میں میننجز اور دماغ کا انفیکشن دونوں شکایات بیک وقت پائی جائیں تو اس حالت کو میننگوانسیفیلائٹس کہتے ہیں۔
ڈاکٹر مفکر میاں نے کمیٹی ارکان کو بتایا کہ گاؤں کے دیگر رہائشیوں کے ساتھ ان علامات پر بات کرنے کے بعد بیماری کی تشخیص کے لیے 74 گھنٹے کے اندرحتمی رپورٹ تشکیل دی جائے گی۔
اسی دوران ڈی ایچ اے کے حکام نے بستی بہرام میں طبی کیمپ لگایا ہے جہاں محکمہ صحت کے اعلیٰ حکام کی ہدایات کے مطابق 24 گھنٹے کام کرےگا۔
اس مرض کے مزید متاثرہ مریضوں کی تصدیق کرنے کے لیے ڈان کے نامہ نگار نے ڈی ایچ اے کے سربراہ ڈاکٹر حسن سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے فون نہیں اٹھایا ۔