• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

فافن نے بلدیاتی الیکشن میں انتخابی عمل کو عام انتخابات کی تیاری کیلئے نامناسب قرار دے دیا

شائع January 19, 2023 اپ ڈیٹ January 20, 2023
فافن نے کہا کہ تمام سیاسی فریقین کو بات چیت کے ذریعے تنازعات کو درست کرنے کی ضرورت ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی
فافن نے کہا کہ تمام سیاسی فریقین کو بات چیت کے ذریعے تنازعات کو درست کرنے کی ضرورت ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی

فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نے کہا ہے کہ حال ہی میں منعقد ہونے والے سندھ کے بلدیاتی انتخابات میں انتخابی عمل کے معیار کے حوالے سے تنازعات اچھے نہیں ہیں بالخصوص ایسے موقع پر جب سیاسی جماعتیں عام انتخابات کی تیاری کر رہی ہیں۔

ایک مشاہداتی رپورٹ میں فافن نے نشان دہی کی کہ بلدیاتی حکومت کے لیے انتخابات میں بہت سے تنازعات قانون سازی کے ڈھانچے کی کمزوریوں کی وجہ سے پیدا ہوئے، تمام سیاسی فریقین کو بات چیت کے ذریعے انہیں درست کرنے کی ضرورت ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ جب تک انتخابات سیاسی استحکام کا باعث نہیں بنتے، جمہوریت کا عمل کمزور ہوتا رہے گا اور اسی طرح عوام کا جمہوریت پر اعتماد اور عوام کی سماجی اور معاشی بہبود کو بہتر بنانے کی صلاحیت بھی کمزور ہوتی رہے گی۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ اس وقت الیکشن کمیشن آف پاکستان کو سیاسی فریقین سے کھل کر بات کرتے ہوئے ان کے جائز خدشات کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ بدین، جامشورو، ٹنڈو محمد خان، ٹنڈو اللہ یار، ٹھٹہ اور ملیر کے اضلاع میں ووٹرز کی متاثر کن تعداد نے ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ اسٹیشن کا رخ کیا جبکہ کراچی وسطی، کراچی شرقی، کراچی غربی، کراچی جنوبی، کورنگی، حیدرآباد اور کیماڑی کے اضلاع میں ووٹرز کی تعداد ’نسبتاً کم‘ تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے برعکس ووٹنگ کا عمل منظم رہا تاہم پولنگ اسٹیشنوں کے اندر اور اس کے اطراف مہم چلانے سے متعلق قانونی اور طریقہ کار کی بے ضابطگیاں اور بیلٹ جاری کرنے کا عمل پہلے مرحلے کی طرح دوسرے مرحلے میں بھی برقرار رہا۔

نیٹ ورک کا کہنا تھا کہ فافن کے مبصرین نے دوسرے مرحلے کے دوران پولنگ اسٹیشن کے رزلٹ فارم (فارم 11) میں کوتاہیوں کو نوٹ کیا ہے، انہوں نے ایسے معاملات کی اطلاع دی جہاں پریزائیڈنگ افسران نے نتیجے کے فارم کو صحیح طریقے سے پُر نہیں کیا جس میں پولنگ اسٹیشنوں کے نام، رجسٹرڈ ووٹرز، پولنگ کے ووٹوں کی صنفی تفریق شدہ تعداد اور پولنگ اہلکاروں کے دستخطوں کے لیے حصے خالی چھوڑ دیے گئے تھے۔

رپورٹ میں عام انتخابات سے قبل پولنگ اسٹیشنوں پر پولنگ ڈے کے انتظام کو بہتر بنانے کے لیے انتخابی مہم کے حوالے سے ضابطہ اخلاق پر سختی سے عمل درآمد یقینی بنانے، مناسب فاصلے پر پولنگ بوتھ قائم کرنے، ووٹر کی شناخت اور بیلٹ جاری کرنے کے عمل کی تعمیل، خواتین پولنگ بوتھوں پر خواتین عملے کی دستیابی اور بنیادی سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے کی سفارش کی گئی ہے۔

فافن نے اپنے مشاہدے میں کہا کہ اس کے مشاہدات 343 شماریاتی نمونوں کے حامل پولنگ اسٹیشنوں پر تعینات ’تربیت یافتہ اور مستند شہری مبصرین‘ سے موصول ہونے والی رپورٹس پر مبنی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے 104 مبصرین تعینات کیے، جنہوں نے 90 پولنگ اسٹیشنوں پر پولنگ کے آغاز کے عمل، 953 پولنگ بوتھوں پر انتخابی عملے اور ووٹنگ کے عمل میں مواد کی دستیابی، ایک ہزار121 ووٹرز کے لیے ووٹر کی شناخت اور بیلٹ جاری کرنے کے عمل اور 74 پولنگ اسٹیشنوں پر گنتی کے عمل کا مشاہدہ کیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے دوران کچھ پولنگ اسٹیشنوں پر زبانی تلخ کلامی کے چند واقعات کو چھوڑ کر پولنگ کا عمل مناسب حفاظتی انتظامات کی بدولت پرامن اور منظم رہا۔

اس میں مزید کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی مہم اور کینوسنگ پابندیوں کے نفاذ میں پہلے مرحلے کے بعد سے کوئی خاطر خواہ بہتری نہیں دیکھی گئی کیونکہ تمام بڑی جماعتوں اور امیدواروں کو پولنگ اسٹیشنوں کے قریبی علاقوں حتیٰ کہ پولنگ اسٹیشنوں کے اندر بھی ووٹرز کو اپنی جانب راغب کرتے دیکھا گیا۔

اس حوالے سے کہا گیا کہ زیادہ تر پولنگ اسٹیشنوں پر بیلٹ کی گنتی کے لیے مناسب طریقہ کار پر عمل کیا گیا اور انتخابی عملہ عام طور پر گنتی کے تقاضوں کی تعمیل کرتا نظر آیا۔

انہوں نے کہا کہ جن پولنگ اسٹیشنوں کا مشادہ کیا گیا ان میں سے 89 فیصد پر پریزائیڈنگ افسران نے بیلٹ بکس کھولنے اور گنتی شروع کرنے سے پہلے انہیں ایک مرکزی مقام پر رکھ دیا، 64 فیصد پولنگ اسٹیشنوں کے دروازے گنتی شروع ہونے سے پہلے بند کر دیے گئے تھے تاکہ گنتی کے عمل کے دوران کوئی بھی شخص کمرے سے باہر نہ جا سکے اور نہ ہی کوئی اندر آ سکے، مشاہدہ کیا گیا کہ پولنگ اسٹیشنز میں سے 4 فیصد پر گنتی کے عمل کے دوران غیر مجاز افراد موجود تھے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ مشاہدہ میں آیا کہ پولنگ اسٹیشنوں میں 18 فیصد پریزائیڈنگ افسران نے پولنگ ایجنٹس کی درخواست پر بیلٹ کی دوسری گنتی کی جبکہ 45 فیصد پر ان کی اپنی ایما پر ایسا کیا گیا، پولنگ ایجنٹس اور سیکیورٹی اہلکاروں کو بالترتیب 12 فیصد اور 4 فیصد پولنگ اسٹیشنوں پر بیلٹ پیپرز کو چھوتے ہوئے دکھا گیا۔

مبصرین کے مطابق مشاہدہ میں آیا کہ پولنگ بوتھوں کی اکثریت پر انتخابی مواد دستیاب تھا، مٹائی نہ جانے والی سیاہی اور اسٹمپ پیڈز 93 فیصد مشاہدہ شدہ پولنگ بوتھوں پر دستیاب تھے، انتخابی فہرستیں اور 92 فیصد پر رازداری، 93 فیصد پر ووٹرز کے بیلٹ پیپرز پر نشان لگانے کے لیے استعمال ہونے والے نو میٹرکس اسٹیمپ، 89 فیصد پر ای سی پی کی آفیشل اسٹیمپ اور 9 فیصد پر شفاف بیلٹ بکس دستیاب تھے۔

اتوار کو سندھ کے 16 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے لیے پولنگ ہوئی تاہم صوبے کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سمیت انتخابات میں حصہ لینے والی تمام بڑی جماعتوں نے کراچی میں نتائج میں غیر معمولی تاخیر پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور بدانتظامی کا ذمہ دار الیکشن کمیشن کو ٹھہرایا تھا۔

ای سی پی کو کراچی کی 236 یونین کمیٹیوں کے نتائج کا اعلان کرنے میں 36 گھنٹے سے زیادہ کا وقت لگا کیونکہ اپوزیشن پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی نے صوبائی انتظامیہ پر دھاندلی اور انتظامات کا الزام لگایا جبکہ اب تک حتمی نتائج نہیں آ سکے۔

ایک روز قبل کراچی میں حریف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے درمیان ضلعی ریٹرننگ افسران کے دفاتر کے باہر پرتشدد جھڑپیں ہوئیں جس کے بعد شہر میں حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے پولیس کو مداخلت کرنا پڑی۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024