سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے
سابق صدرِ پاکستان جنرل (ر) پرویز مشرف طویل علالت کے بعد 79 کی عمر میں انتقال کر گئے۔
پرویز مشرف طویل عرصے سے بیماری سے جنگ لڑ رہے تھے اور دبئی کے امریکن ہسپتال میں زیرِ علاج تھے جہاں اتوار کے روز وہ خالق حقیقی سے جاملے۔
متحدہ عرب امارات میں پاکستانی سفارتی مشن کی ترجمان نے مقامی میڈیا رپورٹس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف دبئی میں انتقال کر گئے۔
دبئی میں پاکستانی قونصل خانے اور ابوظہبی میں سفارت خانے کی ترجمان شازیہ سراج نے غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا کہ سابق صدر آج صبح انتقال کر گئے ہیں۔
شازیہ سراج نے کہا کہ سفارتی مشن پرویز مشرف کے اہل خانہ سے مسلسل رابطے میں ہے۔
نجی نیوز چینل ’جیو‘ کی رپورٹ کے مطابق سابق صدر کی میت پاکستان لے کر جانے کے لیے اہل خانہ کی جانب سے قونصل خانہ دبئی میں درخواست کردی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پرویزمشرف کی میت لینے کے لیے پاکستان سےطیارہ کل صبح دبئی پہنچےگا، خصوصی طیارہ نور خان ایئر بیس سے دبئی کے المکتوم ایئر پورٹ پہنچے گا۔
اظہار تعزیت
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی وفات پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔
ایوانِ صدر کے پریس ونگ سے جاری تعزیتی بیان کے مطابق صدر مملکت نے سابق صدر کے ورثا سے اظہارِ تعزیت کی۔
صدر مملکت نے مرحوم صدر کے لیے دعائے مغفرت اور ورثا کے لیے صبر جمیل کی بھی دعا کی۔
وزیراعظم محمد شہبازشریف نے بھی پرویز مشرف کی وفات پر اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم کے اہل خانہ سے تعزیت اور ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔
وزیراعظم نے مرحوم کی مغفرت اور اہل خانہ کے لیے صبرجمیل کی دعا۔
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے بھی سابق صدر کے انتقال پر گہرے دکھ کا اظہار کیا اور مرحوم کے خاندان سے اظہار تعزیت کیا۔
ٹوئٹر پر جاری اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کو اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
جوائنٹ چیفس آف آرمی اسٹاف کمیٹی ساح شمشاد مرزا اور تمام سروسز چیفس نے جنرل (ر) پرویز مشرف کے انتقال پر دلی تعزیت کا اظہار کیا ہے۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے جوائنٹ چیفس آف آرمی اسٹاف اور سروسز چیف کے حوالے سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہیٰ نے سابق صدر و آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے انتقال پر گہرے دکھ اور رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اہل خانہ کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔
ٹوئٹر پر جاری اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ پاکستان آرمی اور ملک کے لیے ان کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی کے سینئر رہنما فواد چوہدری نے بھی تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف بہت بڑے انسان تھے، ان کے دوست چھوٹے ثابت ہوئے، ہمیشہ سب سے پہلے پاکستان ان کی سوچ اور نظریہ تھا۔
پرویز مشرف کی زندگی پر نظر
پرویز مشرف تقریباً 9 سال (1999-2008) تک آرمی چیف رہے، وہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر بر سر اقتدار آئے تھے، وہ 2001 میں پاکستان کے 10ویں صدر بنے اور 2008 کے اوائل تک اس عہدے پر فائز رہے۔
سابق ڈکٹیٹر پر مارچ 2014 میں 3 نومبر 2007 کو آئین معطل کرنے پر غداری کے مقدمے میں فرد جرم عائد کی گئی تھی۔
17 دسمبر 2019 کو خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت سنائی۔
سابق فوجی حکمران مارچ 2016 میں علاج کے لیے دبئی چلے گئے تھے اور اس کے بعد سے وہ پاکستان واپس نہیں آئے تھے۔
وہ 11 اگست 1943 کو بر صغیر کی تقسیم سے قبل دہلی میں پیدا ہوئے تھے، پاکستان بننے کے بعد ان کا خاندان کراچی میں آباد ہوا جہاں انہوں نے سینٹ پیٹرک اسکول میں تعلیم حاصل کی۔
بعد ازاں، انہوں نے کاکول میں پاکستان ملٹری اکیڈمی میں شمولیت اختیار کی اور 1964 میں گریجویشن کے بعد انہوں نے پاکستان آرمی میں کمیشن حاصل کیا۔
پرویز مشرف نے 1965 کی پاک بھارت جنگ میں حصہ لیا، انہوں نے ایلیٹ اسپیشل سروسز گروپ (ایس ایس جی سی) میں 1966سے 1972 تک خدمات انجام دیں، بھارت کے ساتھ 1971 میں ہونے والی جنگ کے دوران پرویز مشرف ایس ایس جی کمانڈو بٹالین کے کمپنی کمانڈر تھے۔
1971 کے بعد انہوں نے کئی فوجی محاذوں پر شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور تیزی سے ترقی حاصل کی۔
ریٹائرڈ جنرل کی بیماری کی خبریں 2018 میں سامنے آئی تھیں جب آل پاکستان مسلم لیگ نے اعلان کیا تھا کہ وہ امائلائیڈوسس’ (Amyloidosis) کی بیماری میں مبتلا تھے۔
امائلائیڈوسس کم پائی جانے والی سنگین صورتحال کا نام ہے جو پورے جسم کے اعضا اور ٹیشوز میں امائلائیڈ نامی پروٹین کے پیدا ہونے سے ہوتی ہے، اس پروٹین کے بننے سے اعضا اور ٹیشوز کے لیے مناسب طریقے سے کام کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس 10 جون کو ان کے اہل خانہ نے واضح کیا تھا کہ وہ وینٹی لیٹر پر نہیں ہیں لیکن تین ہفتوں سے ہسپتال میں داخل ہیں۔
اہل خانہ نے یہ بیان اس وقت جاری کیا تھا جب ان کے انتقال کی جھوٹی خبریں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر گردش کرنے لگی تھیں اور کچھ پاکستانی اور بھارتی اشاعتی اداروں نے بھی اسے شائع کردیا تھا۔