• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

آئی ایم ایف سے مذاکرات حتمی مرحلے میں، گیس اور بجلی کے نرخ میں فوری اضافہ درکار

شائع February 9, 2023
تمام معاملات طے پاجانے کے بعد ایم ای ایف پی پاکستان کے حوالے کردیا جائے گا — فائل فوٹو: اے پی
تمام معاملات طے پاجانے کے بعد ایم ای ایف پی پاکستان کے حوالے کردیا جائے گا — فائل فوٹو: اے پی

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے بیل آؤٹ حاصل کرنے کے تعطل کے درمیان حکومت نے بہادری دکھائی کیونکہ دونوں فریق بیرونی مالیاتی تخمینوں اور درست ملکی مالیاتی اقدامات کو حتمی شکل دینے میں تاحال ناکام رہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف مشن کی جانب سے بیرونی فنانسنگ اور ملکی بجٹ کے اقدامات کے ساتھ توانائی کی لاگت میں خاطر خواہ ایڈجسٹمنٹس پر ایک واضح روڈ میپ، اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں (ایم ای ایف پی) کے مسودے کو 9 فروری کو ہونے والے مذاکرات کے طے شدہ اختتام سے کم از کم ایک روز قبل حکام کے ساتھ شیئر کرنا چاہیے تھا۔

تاہم ایک سینیئر سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ بدھ کی رات تک ہمیں (ایم ای ایف پی) کا مسودہ موصول نہیں ہوا اور مالی اقدامات و بیرونی فنڈنگ کے ذرائع دونوں کے لحاظ سے حتمی لائحہ عمل پر آئی ایم ایف کے تحفظات ابھی بھی موجود ہیں۔

موجودہ مالی سال کے لیے فرق کے حوالے سے آئی ایم ایف کا تخمینہ 6 ارب ڈالر ہے۔

وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم حتمی نتیجے پر پہنچنے کے بہت قریب ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تمام معاملات طے پاجانے کے بعد آئی ایم ایف ایم کی جانب سے ایم ای ایف پی پاکستان کے حوالے کردیا جائے گا، بہت سی چیزیں طے ہوچکی ہیں اور انہیں ان میں سے کچھ کے بارے میں وضاحت درکار ہے جسے حکومتی ٹیم حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

وزارت خزانہ نے بھی ایک تحریری بیان میں اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’مالیاتی میزان اور فنانسنگ پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے بدھ کو آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت جاری رہی اور اصلاحاتی اقدامات پر وسیع اتفاق رائے ہے‘۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ مشن کے سربراہ نے وزیر خزانہ سے بھی ملاقات کی اور انہیں مذاکرات کے بارے میں آگاہ کیا۔

سیکریٹری خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف مشن ان سب چیزوں کو اکٹھا کرنے پر کام کر رہا ہے اور ایم ای ایف پی کو حتمی شکل دے گا جبکہ اس بات پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا کہ کیا عملے کی سطح کا معاہدہ کرنے کے لیے طے شدہ مذاکرات میں توسیع کی جائے گی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے مالیاتی منصوبے میں 500 ارب روپے سیلاب سے بحالی کے اخراجات کی حد تک نرمی کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے، اس سے بنیادی توازن میں تقریباً 600 ارب روپے کا خسارہ ہوگا جسے اخراجات میں کمی اور اضافی ٹیکس کے اقدامات سے پورا کیا جائے گا۔

تاہم فنڈ ابھی تک بیرونی مالیاتی وعدوں، خاص طور پر دوست ممالک، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین، کے علاوہ کچھ دیگر کثیرالجہتی فنڈنگ کے بارے میں پراعتماد نہیں ہے۔

آئی ایم ایف نامکمل وعدوں کی روایت کے پیش نظر بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافے پر بھی فوری عمل درآمد دیکھنا چاہتا ہے۔

حکومت نے رواں مالی سال کے لیے تقریباً ساڑھے 9 کھرب روپے کے فرق کو پورا کرنے کے لیے مطلوبہ بجلی کے ٹیرف ایڈجسٹمنٹ پر رضامندی ظاہر کی ہے لیکن ابھی تک مختلف زمروں اور محفوظ صارفین کے لیے کراس سبسڈیز اور اس زمرے کے تحت کھپت کی حد پر کام کرنا باقی ہے۔

باخبر ذرائع نے بتایا کہ نیتھن پورٹر کی قیادت میں دورہ کرنے والے آئی ایم ایف مشن نے وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ ایک ورچوئل سیشن کے علاوہ وزیر خزانہ اسحٰق ڈار سے بھی روبرو ملاقات کی۔

مشن کو بقایا اقدامات پر مکمل عمل درآمد کی یقین دہانی کرائی گئی جس میں اوسط بیس ٹیرف میں تقریباً 7.65 روپے فی یونٹ بجلی کے نرخوں میں اضافے کے ساتھ 3 روپے فی یونٹ کی سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ شامل ہے جسے پھر کم کیا جائے گا۔

رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف مشن نے گیس ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کو کلیئر کر دیا ہے جس کے پہلے مرحلے میں کم از کم گردشی قرض کے بہاؤ کو پورا کرنا چاہیے، اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کی جانب سے مقرر کردہ گیس کے نرخوں میں اوسطاً 100 روپے فی یونٹ اضافہ ہوگا۔

ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ حکومت ٹیکسوں یا بجلی کے نرخوں کے مزید بوجھ سے عام آدمی کو بچانے کی پوری کوشش کر رہی ہے جو ان لوگوں کو منتقل ہو جائے گا جو ادائیگی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اگر یہ ناگزیر ہوا تو عام لوگوں پر اثر کو کم سے کم رکھا جائے۔

انہوں نے کہا کہ فنڈ پروگرام کے تحت درکار آئندہ فیصلوں کے لیے وزیراعظم سے منظوری حاصل کی گئی تھی کیونکہ فنڈ کا معاہدہ پاکستان کے لیے ناگزیر ہے اور یہ کہ دورہ کرنے والے مشن کے ساتھ بات چیت اب نتیجے کی طرف بڑھ رہی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024