پاکستان کا گیس کے بجائے مقامی کوئلے سے بجلی کی پیداوار 4 گنا بڑھانے کا ارادہ
غیر ملکی زرِمبادلہ کی کمی کے بحران کو دور کرنے کے لیے پاکستان بجلی بنانے کی لاگت کم کرنے کے لیے مقامی کوئلے کی صلاحیت میں 4 گنا اضافہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور آئندہ آنے والے برسوں میں گیس سے چلنے والے بجلی گھر نہیں لگائے گا۔
وزیر توانائی خرم دستگیر نے یہ بات برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز ’کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی۔
ملک میں بجلی کی مجموعی پیداوار کا ایک تہائی حصہ قدرتی گیس سے بنتا ہے جس کی قلت کی وجہ سے گزشتہ برس بڑے علاقے کئی گھنٹوں کی تاریکی میں ڈوب گئے تھے۔
روس کے یوکرین پر حملے کے بعد مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کی عالمی قیمتوں میں اضافے اور شدید اقتصادی بحران کے باعث ایل این جی پاکستان کے لیے قابل خرید نہیں رہی۔
خرم دستگیر نے کہا کہ ’ایل این جی طویل المدتی منصوبے کا حصہ نہیں ہے، حکومت درمیانی مدت میں مقامی کوئلے سے بجلی کی پیداوار کو 2.31 گیگا واٹ کی موجودہ صلاحیت سے بڑھا کر 10 گیگا واٹ تک پہنچانا چاہتی ہے۔
شہریوں کو قابل بھروسہ بجلی فراہم کرنے کے لیے کوئلے کی طرف جانے کا منصوبہ مؤثر ڈیکاربنائزیشن کی حکمت عملیوں کے مسودے میں چیلنجز کی نشاندہی کرتا ہے۔
سال 2022 میں توانائی کی طلب میں اضافے کے باوجود پاکستان کی ایل این جی کی سالانہ درآمدات 5 سال کی کم ترین سطح پر آگئی کیوں کہ یورپی خریداروں نے قیمت کے حوالے سے حساس صارفین کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
ایک انٹرویو میں خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس دنیا کے چند بہترین ریگیسیفائیڈ ایل این جی سے بجلی بنانے والے پلانٹس ہیں لیکن ہمارے پاس انہیں چلانے کے لیے گیس نہیں ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ اقتصادی بحران سے نبرد آزما اور فنڈ کی اشد ضرورت کا شکار پاکستان ایندھن کی درآمدات کو کرنا اور خود کو جیوپولیٹیکل دھچکے سے بچانا چاہتا ہے۔
ملک کے مرکزی بینک میں موجود زرِمبادلہ کے ذخائر 2 ارب 90 کرور ڈالر تک کم ہوچکے ہیں جو 3 ہفتوں کی درآمدات کے لیے بھی ناکافی ہیں۔
خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ ’سوال صرف یہ نہیں کہ آپ سستی توانائی پیدا کریں بلکہ مقامی ذرائع سے بنانا بھی انتہائی اہم ہے‘۔
کوئلے سے چلنے والے پلانٹس کے علاوہ پاکستان کا ارادہ شمسی توانائی، پانی اور جوہری توانائی سے بھی بجلی کی پیداوار میں اضافہ کرنے کا ہے۔
اگر مجوزہ پلانٹس تعمیر ہوگئے تو اس سے پاکستان میں توانائی کی طلب اور موجودہ توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت میں موجود فرق بڑھ جائے گا جس کی وجہ سے ملک ان بجلی گھروں کو بے کار چھوڑنے پر مجبور ہوجائے گا۔
جون 2022 میں ختم ہونے والے مالی سال کے دوران پاکستان میں بجلی کی پوری کی گئی طلب 28.25 گیگا واٹ تھی جو 43.77 گیگا واٹ کی پیداواری صلاحیت سے 35 فیصد کم تھی۔
فوری طور پر یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ پاکستان مجوزہ کوئلے کے پلانٹس کے لیے رقم کہاں سے فراہم کرے گا تاہم خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ نئے بجلی گھروں کی تعمیر کا انحصار ’سرمایہ کاروں کی دلچسپی‘ پر ہے۔
چین اور جاپان کے مالیاتی ادارے ترقی پذیر ممالک میں کوئلے سے چلنے والے پلانٹس کے لیے سرمایہ فراہم کرنے والے بڑے اداروں میں سے ہیں لیکن اب وہ مغربی ممالک اور رضاکاروں کے دباؤ کے باعث فوسل فیول کے منصوبوں سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔