بھارت: بی بی سی کے خلاف ٹیکس تحقیقات، حکام کا انتقامی کارروائی کے تاثر سے انکار
برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کو بھارت میں وزیراعظم نریندر مودی کے حوالے سے دستاویزی فلم بلاک کیے جانے کے بعد عملے کو انکم ٹیکس حکام کی جانب سے تفتیش کا سامنا ہے۔
خبرایجنسی رائٹرز کی رپوٹ کے مطابق بھارتی حکام کا کہنا تھا کہ بی بی سی کے عہدیداروں کے انکم ٹیکس کا سروے معمول کی کارروائی ہے جو ان کی جانب سے تسلی بخش جوابات نہ دینے کے بعد شروع کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ٹیکس حکام نے نئی دہلی اور ممبئی میں دوسری مرتبہ بی بی سی کے دفاتر کی تلاشی لی جبکہ بھارت میں صحافتی تنظیموں کی جانب سے اس اقدام پر تنقید کی گئی۔
خیال رہے کہ بی بی سی نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت کے حوالے سے ’انڈیا: دی مودی کوئسچن‘ کے عنوان سے دستاویزی فلم بنائی تھی جس میں 2002 میں گجرات میں ان کی وزارت اعلیٰ کے دوران ہونے والے خونی فسادات کا ذکر کیا گیا تھا، جہاں تقریباً ایک ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں سے اکثر مسلمان تھے۔
فلاحی اداروں نے رپورٹ کیا تھا کہ ہلاک افراد کی تعداد ایک ہزار سے دو گنا بھی زیادہ ہے۔
بھارتی حکومت نے گزشتہ ماہ اس دستاویزی فلم ’انڈیا: دی مودی کوئسچن‘ کو پراپگینڈا قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا تھا اور اس کی نشریات اور سوشل میڈیا پر شیئر کرنے پر پابندی عائد کردی تھی۔
بھارتی وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ دستاویزی فلم کا مقصد ’بدنامی کا بیانیہ‘ تھا جو جانب دار، ناقص اور نوآبادیاتی رویے کا تسلسل تھا۔
دوسری جانب بی بی سی اپنی دستاویزی فلم کے مواد پر قائم ہے اور ٹیکس کے حوالے سے بیان میں کہا کہ وہ بھارت کے ٹیکس حکام کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔
وزارت اطلاعات اور نشریات کے سینئر مشیر کنچن گپتا کا کہنا تھا کہ بی بی سی کو ماضی میں ٹیکس کے حوالے سے نوٹسز جاری کیے تھے لیکن بی بی سی کی جانب سے ٹیکس حکام کو تسلی بخش جواب فراہم نہیں کیا گیا۔
ٹائمز ناؤ نیوز چینل نے رپورٹ میں بتایا کہ ٹیکس سروے کا تعلق ٹرانسفر پرائسنگ قواعد اور منافع کی مبینہ تبدیلی سے ہے، یہ اقدام نہ تو انتقامی اور نہ ہی سزا کے طور پر کیا گیا ہے۔
بی بی سی ورلڈ سروس کے ڈائریکٹر لیلیانے لینڈور نے کنچن گپتا کے بیان سے قبل محکمہ جاتی میمو میں کہا تھا کہ انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ بھارت میں ادارے کے ٹیکس اور امور کا سروے کر رہا ہے، جس کے ساتھ بی بی سی مکمل طور پر تعاون کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ اگر آپ کو افسران سے ملنے کا کہا گیا تو آپ کو ان کے سوالوں کا دیانت داری اور براہ راست جواب دینا چاہیے۔
لینڈور نے کہا کہ بھارت میں بی بی سی کا ڈھانچہ، سرگرمیاں، تنظیم اور آپریشنز تفتیش کی حدود کے اندر ہے اور جواب دینا چاہیے۔
اپنے عملے سے انہوں نے کہا تھا کہ اپنی ڈیوائسز سے کسی قسم کی معلومات ان کو بتائے بغیر ہٹایا یا چھپانا نہیں چاہیے۔
بی بی سی کے ترجمان نے اس حوالے سے فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔
اسی طرح بھارت کے محکمہ انکم ٹیکس کی جانب سے بھی تلاشی کی وجوہات کے حوالے سے بیان دینے سے انکار کیا۔
بھارت کے اندر موجود صحافتی تنظیموں نے تلاشی کے اس اقدام پر تنقید کی۔
ممبئی پریس کلب نے بیان میں کہا کہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ہراساں کرنے کا عمل بند کیا جائے اور صحافیوں کو بلاخوف اور جانب داری کے اپنا کام کرنے دیا جائے۔
اخبار انڈین ایکسپریس کے اداریے میں کہا گیا کہ حکومت کا اقدام ’غنڈہ گردی کے مترادف ہے‘۔
بھارت صحافت کے حوالے سے رپورٹرز ود آؤٹ باڈرز ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں بدترین پوزیشن پر ہے اور گزشتہ برست 8 درجے تنزلی کے بعد 150 ویں نمبر پر چلا گیا تھا۔
بھارتی حکومت کا کہنا تھا کہ انہیں انڈیکس کے ذریعے اخذ کیے گئے نتائج سے اتفاق نہیں ہے۔