• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am

نیب ترامیم: کیس کو جلد ختم کرنا چاہتے ہیں، چیف جسٹس

شائع February 16, 2023
چیف جسٹس عمر عطا بندیال — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
چیف جسٹس عمر عطا بندیال — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) چیئرمین عمران خان کی قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم پر سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ ہم کیس کو جلد ختم کرنا چاہتے ہیں۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل بینچ نے نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔

دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ کیا نیب قانون کے ساتھ واضح نہیں ہے کہ کیسز منتقل ہو کر کہاں جائیں گے، اس پر وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ چیئرمین نیب کی سربراہی میں کمیٹی ہے جو کیسز کی متعلقہ فورمز پر منتقلی کا معاملہ دیکھ رہی ہے۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ برطانیہ میں کہا جاتا ہے کہ اگر کسی معاملے کا فیصلہ نہ کرنا ہو تو اس کو کمیٹی میں بھجوا دیں، نیب آرڈیننس 2019 کے تحت 41 افراد بری ہوئے تھے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کیس میں عدالت خود کو 2022 کی نیب ترامیم تک ہی محدود رکھے گی۔

وکیل نے کہا کہ عمران خان کی درخواست میں حقائق درست انداز میں نہیں بتائے گئے، درخواست میں درخواست گزار کو نیب ترامیم کے آئین کی شقوں سے متصادم ہونے کے متعلق بتانا ہوتا ہے۔

وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ عمران خان کی درخواست میں کُل 47 قانونی سوالات ہیں، ان قانونی سوالات میں سے صرف 4 میں نیب ترامیم کے ساتھ آئینی شقوں کا حوالہ دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نیب ترامیم کے درخواست میں پہلے دو سوالات ضیا اور مشرف دور کے ریفرنڈم والے ہیں، ترامیم کی درخواست میں 21 قانونی سوالات دراصل سوالات ہی نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ درخواست کے ان 21 سوالات میں کسی نیب ترامیم یا بنیادی حقوق کا حوالہ نہیں دیا گیا، درخواست کے 16 سوالات میں نیب ترامیم کا حوالہ دیا گیا پر بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں بتائی گئی۔

وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ درخواست میں 6 سوالات میں بنیادی حقوق بتائے گئے مگر نیب ترامیم درج نہیں کی گئیں، عمران خان نے درخواست میں بیرونی سازش کا ذکر بھی کیا ہے۔

وکیل نے دلائل دیے کہ پچھلے کچھ دنوں کے اخبارات کے مطابق اب یہ امپورٹڈ سازش بھی ایکسپورٹڈ سازش بن چکی اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے تو عمران خان کی درخواست کا فرانزک آڈٹ کردیا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ کیس کو جلد ختم کرنا چاہتے ہیں، بہت سے اہم معاملات غور طلب ہیں جن کی نیب کیس ختم ہونے کے بعد سماعت کریں گے۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 21 فروری تک ملتوی کردی۔

نیب ترامیم

خیال رہے کہ جون 2022 میں مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت اتحادی حکومت نے نیب آرڈیننس میں 27 اہم ترامیم متعارف کروائی تھیں، لیکن صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ان کی منظوری نہیں دی تھی، تاہم اس بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا اور بعد میں اسے نوٹیفائی کیا گیا تھا۔

نیب (دوسری ترمیم) بل 2021 میں کہا گیا ہے کہ نیب کا ڈپٹی چیئرمین، جو وفاقی حکومت کی جانب سے مقرر کیا جائے گا، چیئرمین کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بیورو کا قائم مقام چیئرمین بن جائے گا، بل میں چیئرمین نیب اور بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کی 4 سال کی مدت بھی کم کر کے 3 سال کردی گئی ہے۔

قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکے گا، مزید یہ کہ ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا ہے۔

بل میں کہا گیا ہے کہ اس آرڈیننس کے تحت افراد یا لین دین سے متعلق زیر التوا تمام پوچھ گچھ، تحقیقات، ٹرائلز یا کارروائیاں متعلقہ قوانین کے تحت متعلقہ حکام، محکموں اور عدالتوں کو منتقل کی جائیں گی، بل نے احتساب عدالتوں کے ججوں کے لیے 3 سال کی مدت بھی مقرر کی ہے، یہ عدالتوں کو ایک سال کے اندر کیس کا فیصلہ کرنے کا پابند بھی بنائے گا۔

مجوزہ قانون کے تحت نیب کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ملزم کی گرفتاری سے قبل اس کے خلاف شواہد کی دستیابی کو یقینی بنائے، بل میں شامل کی گئی ایک اہم ترمیم کے مطابق یہ ایکٹ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے شروع ہونے اور اس کے بعد سے نافذ سمجھا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024