• KHI: Fajr 5:36am Sunrise 6:56am
  • LHR: Fajr 5:14am Sunrise 6:39am
  • ISB: Fajr 5:22am Sunrise 6:49am
  • KHI: Fajr 5:36am Sunrise 6:56am
  • LHR: Fajr 5:14am Sunrise 6:39am
  • ISB: Fajr 5:22am Sunrise 6:49am

سپریم کورٹ کے ججز کا ساتھی جج کی مبینہ آڈیو لیک کے معاملے پر غور

شائع February 19, 2023
سپریم کورٹ بلڈنگ میں ہوئے اجلاس میں ایک کے سوا تمام دستیاب 14 ججز موجود تھے —فائل فوٹو: اے ایف پی
سپریم کورٹ بلڈنگ میں ہوئے اجلاس میں ایک کے سوا تمام دستیاب 14 ججز موجود تھے —فائل فوٹو: اے ایف پی

قانونی حلقوں میں دبے الفاظ میں جاری بات چیت یہ ظاہر کرتی ہے اگر حالیہ آڈیو لیکس کا مواد درست پایا جاتا ہے تو سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کی جانب سے سپریم کورٹ کے جج کے خلاف سوموٹو کارروائی ہوگی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ججوں کی ایک غیر رسمی میٹنگ کے دوران اس مسئلے پر بحث کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کا مطالبہ تیز ہوگیا ہے۔

جمعہ کو سپریم کورٹ بلڈنگ میں اجلاس ہوا جس میں ایک کے علاوہ تمام دستیاب 14 ججز موجود تھے اور آڈیو کلپس کا موضوع بننے والے جج نے بھی اجلاس میں شرکت کی۔

اگرچہ اس بات کی باضابطہ طور پر تصدیق نہیں ہوئی کہ اجلاس کے دوران کیا ہوا؟ سیشن بے نتیجہ رہا یا اس طرح کے مزید اجلاس ہوں گے لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ اجلاس کا موضوع درحقیقت لیک آڈیو کلپس کے گرد گھومتا ہے۔

خیال رہے کہ 16 فروری کو تین آڈیو کلپس لیک ہوئے تھے جس میں سے ایک کلپ میں پرویز الہٰی کو مبینہ طور پر جج سے بات کرتے ہوئے سنا گیا جن کے بینچ کے سامنے وہ چاہتے تھے کہ بدعنوانی کا مقدمہ سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔

پرویز الہٰی کی آواز جج کو یہ بتاتے ہوئے سنی جاسکتی تھی کہ وہ ان سے ملنے آرہے ہیں، جس پر دوسری طرف کے آدمی نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ مناسب نہیں ہوگا لیکن سابق وزیر اعلیٰ پنجاب مصر رہے کہ وہ قریب ہیں اور بغیر پروٹوکول کے آرہے ہیں اور وہ سلام کرکے چلے جائیں گے۔

تاہم ججوں کے اجلاس میں اس بات پر اتفاق تھا کہ ایک ایسے وقت میں جب سیاسی ماحول بہت زیادہ گرم ہے اور ادارہ جاتی تضادات ہیں، ایسی آڈیو لیکس نے واقعی لوگوں کی نظروں میں اعلیٰ عدلیہ کی عزت اور وقار کو ٹھیس پہنچائی ہے۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان سے بات کرتے ہوئے ایک سینئر وکیل نے اتفاق کیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل آگے آئے اور ایک قدم آگے بڑھائے۔

انہوں نے کہا کہ کونسل کا دائرہ اختیار دو طرح کا ہے، یہ یا تو اس وقت فعال ہوتی ہے جب صدر کی جانب سے کوئی ریفرنس بھیجا جاتا ہے یا کونسل کے نوٹس میں کوئی معلومات آتی ہے تو وہ اپنی تحریک پر کارروائی کر سکتی ہے، بشرطیکہ معلومات کافی ہوں اور یہ دیکھنے کے لیے جانچ پڑتال کی ضرورت ہو کہ کیا عدالتی عمل کا کوئی غلط استعمال ہوا ہے یا نہیں، یا کسی نے جج پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی اور کیا جج پر اس کا اثر ہوا اور اس کا نتیجہ کیس پر اثر انداز ہونے کی صورت میں نکلا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات سے ملک کے اعلیٰ ترین ادارے کی سالمیت اور ساکھ پر ہمیشہ سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔

چونکہ آڈیو لیکس ایک مخصوص سیاستدان کے جوڈیشل افسر کے ساتھ مبینہ قریبی تعلقات کو ظاہر کرتی ہے، خاص طور پر جب کسی خاص کیس پر بات ہو رہی ہو، تو اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مبینہ طور پر جج پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی تھی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کیس کا نتیجہ ایک خاص طریقے سے نکل سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ چنانچہ معلومات سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے رکھنے کے لیے کافی ہے جو فیصلہ کر سکتی ہے کہ متعلقہ جج کو اظہارِ وجوہ کا نوٹس جاری کیا جائے یا نہیں لیکن اگر جج خود مستعفی ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں تو پھر کسی اظہارِ وجوہ کے نوٹس کی ضرورت نہیں ہوگی۔

وکیل نے یاد دلایا کہ آڈیو کلپس ایک ایسے وقت میں منظر عام پر آئے جب سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کی جانب سے وفاقی حکومت کو خدمات واپسی کے خلاف دائر کی گئی اپیل کی سماعت کی، جو پرویز الہٰی کے قریبی سمجھے جاتے ہیں۔

یہ وہی سماعت ہے جس میں سپریم کورٹ کے بینچ نے 90 روز میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا معاملہ ازخود سماعت شروع کرنے کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کو بھجوایا تھا۔

سینئر وکیل حافظ احسن احمد کھوکھر کے مطابق اس میں کوئی شک نہیں کہ ملکی سیاست اور معیشت کا غیر معمولی وقت ہے لیکن پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے انعقاد میں کوئی خاص رکاوٹ نظر نہیں آتی کیونکہ یہ متعلقہ گورنر، نگران حکومت اورالیکشن کمیشن آف پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ اس بات کو یقینی بنائے کہ دونوں صوبوں میں 90 روز کے اندر آئین کے آرٹیکل 105 کی روح کے مطابق انتخابات آزادانہ، منصفانہ اور شفاف طریقے سے کرائے جائیں۔

ایک اور وکیل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یاد دلایا کہ کس طرح 2001 میں لاہور ہائی کورٹ کے اس وقت کے جسٹس (ر) ملک محمد قیوم اور سپریم کورٹ کے جسٹس (ر) راشد عزیز کو سپریم کورٹ کی جانب سے اس فیصلے کے بعد مستعفی ہونا پڑا تھا کہ وہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے کہنے پر مجرم قرار دینے اور سزا سنانے کی لیک ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو کی بنیاد پر سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف متعصب تھے۔

کارٹون

کارٹون : 24 نومبر 2024
کارٹون : 23 نومبر 2024