• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

ترکیہ: ملبے تلے دبے افراد کو بچانے کی کوششیں ختم، لوگ پیاروں کی لاشوں کے منتظر

شائع February 19, 2023
خاندان امید کے ساتھ منتظر ہیں، وہ اپنے پیاروں کا جنازہ اور تدفین چاہتے ہیں— تصویر: رائٹرز
خاندان امید کے ساتھ منتظر ہیں، وہ اپنے پیاروں کا جنازہ اور تدفین چاہتے ہیں— تصویر: رائٹرز

ترکیہ میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے تقریباً 2 ہفتوں بعد بچاؤ کی کوششیں اتوار کے روز ختم ہو گئیں اور بہت سے غمزدہ خاندانوں کی واحد امید یہی ہے کہ ان کے پیاروں کی باقیات مل جائیں تاکہ وہ انہیں دفنا سکیں۔

برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق قہر مان مرعش کے ایک قصبے میں تباہ شدہ عمارتوں کا ملبہ ہٹانے والے بلڈوزر آپریٹر نے کہا کہ ہم ٹنوں وزنی ملبے کے نیچے سے لاشیں نکالتے ہیں، خاندان امید کے ساتھ منتظر ہیں، وہ اپنے پیاروں کا جنازہ اور تدفین چاہتے ہیں۔

اسلامی روایات کے مطابق مردے کی تدفین جلد از جلد کی جانی چاہیے۔

ترکیہ کے ڈیزاسٹر اینڈ ایمرجنسی مینجمنٹ اتھارٹی کے سربراہ یونس سیزر نے کہا کہ ’تلاش اور بچاؤ کی کوششیں اتوار کی رات کو ختم ہو جائیں گی‘۔

خیال رہے کہ 6 فروری کو ترکیہ اور شام میں آنے والے 7.8 شدت کے زلزلے کے بعد اب تک 46 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے، زلزلے کے نتیجے میں ترکیہ میں 3 لاکھ 45 ہزار اپارٹمنٹس تباہ ہوئے جن میں رہائش پذیر اب بھی بہت سے افراد لاپتا ہیں۔

ترکیہ اور شام دونوں کو ہی زلزلے کے بعد لاپتا ہوجانے والوں کی اصل تعداد کا علم نہیں ہے۔

 امدادی رضاکار نے بتایا کہ وہ ٹنوں وزنی مبلہ ہٹا کر لاشوں کو نکالتے ہیں—تصویر: رائٹرز
امدادی رضاکار نے بتایا کہ وہ ٹنوں وزنی مبلہ ہٹا کر لاشوں کو نکالتے ہیں—تصویر: رائٹرز

زلزلے کے جھٹکوں کے 12 روز بعد کرغزستان کے کارکنوں نے جنوبی ترکیہ کے علاقے انتاکیا میں ایک عمارت کے ملبے سے 5 افراد کے شامی خاندان کو بچانے کی کوشش کی۔

اس میں ایک بچے سمیت تین افراد کو زندہ بچا لیا گیا، ریسکیو ٹیم نے بتایا کہ ماں اور باپ بچ گئے، لیکن بچہ بعد میں پانی کی کمی کے باعث دم توڑ گیا جبکہ اس کی ایک بڑی اور ایک جڑواں بہن نکالے جانے سے پہلے انتقال کر چکی تھیں۔

ریسکیو ٹیم کے ایک رکن عطائے عثمانوف نے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ آج جب ہم ایک گھنٹہ پہلے کھدائی کر رہے تھے تو ہمیں چیخنے کی آوازیں آئیں، جب ہمیں ایسے لوگ ملتے ہیں جو زندہ ہوتے ہیں تو ہمیں خوشی ہوئی۔

قریبی سڑک پر موجود 10 ایمبولینسز ریسکیو کام کی اجازت حاصل کرنے کے لیے انتظار کر رہی تھیں۔

جب امدادی رضاکاروں کی ٹیم عمارت کے ملبے کے اوپر پہنچی جہاں سے وہ خاندان ملا تھا تو تمام افراد کو بالکل خاموش ہونے اور بیٹھ جانے کا کہا گیا تاکہ الیکٹرانک ڈیٹیکٹر کی مدد سے مزید کسی آواز کو سنا جاسکے۔

جب بچاؤ کی کوششیں جاری تھیں تو ایک کارکن نے ملبے میں چیخ کر کہا کہ ’اگر آپ میری آواز سن سکتے ہیں تو گہری سانس لیں‘

صفائی کے بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچنے کی وجہ سے صحت کے حکام انفیکشن کے ممکنہ پھیلاؤ کے بارے میں فکر مند ہیں۔

 شام کے باغیوں کے زیر قبضہ قصبے  میں زلزلہ زدگان کے کیمپ میں ایک لڑکی خیمے کے باہر کھڑی ہے—تصویر: رائٹرز
شام کے باغیوں کے زیر قبضہ قصبے میں زلزلہ زدگان کے کیمپ میں ایک لڑکی خیمے کے باہر کھڑی ہے—تصویر: رائٹرز

عالمی ادارہ صحت کے اندازے کے مطابق ترکیہ اور شام دونوں ممالک میں 2 کروڑ 60 لاکھ افراد کو امداد کی ضرورت ہے۔

دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اتوار کو ترکیہ پہنچیں گے تاکہ اس بات پر تبادلۂ خیال کیا جاسکے کہ واشنگٹن کس طرح انقرہ کی ایسے وقت میں مزید مدد کر سکتا ہے جب کہ وہ جدید دور کی بدترین قدرتی آفت سے نبرد آزما ہے۔

شام میں اب تک 5 ہزار 800 سے زائد اموات کی تصدیق ہوچکی ہے، عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) کا کہنا ہے کہ ملک کے شمال مغربی حصے میں حکام متاثرہ علاقوں تک رسائی کو روک رہے ہیں۔

شام میں زیادہ تر ہلاکتیں شمال مغرب میں ہوئی ہیں، یہ علاقہ باغیوں کے زیر کنٹرول ہے جو صدر بشار الاسد کی وفادار افواج کے خلاف حالت جنگ میں ہے۔

ڈبلیو ایف پی کے ڈائریکٹر ڈیوڈ بیسلے نے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’وقت تیزی سے پھسل رہا ہے اور ہمارے پاس پیسے ختم ہورہے ہیں، صرف زلزلے کے ردعمل کے لیے ہمارا آپریشن ماہانہ 50 کروڑ ڈالر کا ہے، لہٰذا اگر یورپ پناہ گزینوں کی نئی لہر نہیں چاہتا تو ہمیں وہ مدد حاصل کرنے کی ضرورت ہے جس کی ہمیں ضرورت ہے‘۔

ہزاروں شامی جنہوں نے خانہ جنگی سے بچ کر ترکیہ میں پناہ لی تھی، کم از کم ابھی کے لیے جنگ زدہ علاقوں میں موجود اپنے گھروں کو واپس آچکے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024