ضلعی عدلیہ میں جاکر لوگ بدتمیزی کرتے ہیں، جو ناقابل قبول ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے آئین اور قانون کی بالادستی پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں بہت تکلیف ہوتی ہے کہ لوگ ضلعی عدلیہ میں جاکر بدتمیزی کرتے ہیں لیکن یہ ناقابل قبول ہے۔
کوئٹہ میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’یہاں اپنے ساتھیوں سے مل کر خوشی ہوتی ہے اور بہت صلاحیتیں نظر آتی ہیں لیکن مجھے افسوس ہوتا ہے کہ یہاں اتنی ترقی نہیں ہوئی جتنا اس خطے کا حق بنتا ہے اور اس میں ہم محض ریاست کو ذمہ دار قرار نہیں دے سکتے بلکہ اس میں ہم سب کا حصہ ہے جو ہمیں ڈالنا چاہیے تاکہ اس معاشرے میں امن اور سکون لائیں‘۔
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’یہاں ترقی کے تمام اہم امور تعلیم، محنت، سچائی، دیانت داری مل کر ترقی کا راستہ بنتا ہے‘۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’جب سے میں آیا ہوں یہی خیال ہے کیوں اس صوبے میں ترقی نہیں ہو رہی ہے، اتنے اچھے لوگ ہیں، اتنے وسائل ہیں، ان وسائل کے باوجود کیا مسائل ہیں کہ ہم نے ترقی نہیں کی‘۔
اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ ’ہم عدلیہ، سپریم کورٹ میں بیٹھ کر جس چیز کا عزم رکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ یہاں قانون کی بالادستی ہو، یہاں جو حقوق آئین اور قانون نے دیے ہیں ان کا نفاذ ہو اور اس کے لیے ہمیشہ کے لیے تیار ہیں‘۔
سپریم کورٹ رجسٹری کوئٹہ میں تقریب کے شرکا سے چیف جسٹس نے کہا کہ ’پہلے آپ سے دور اسلام آباد میں تھے، کبھی کبھار آتے تھے اور اب 30 سال بعد آپ نے یہاں اپنا ایک گھر دے دیا ہے ہم یہاں کر کام کریں گے لیکن آپ تعاون کریں گے‘۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ’آپ وہ مسائل ہمارے سامنے لائیں گے، جن کے ذریعے ہم بطور عدالت فیصلے کر سکیں تاکہ لوگ جو اس عمل میں داخل ہیں، خواہ وہ ریاست، کاروباری براداری یا ٹیکس دہندگان ہیں، ہم ان کو سب کو بتا سکیں کہ قانون، ترقی اور خوش حالی کا یہ راستہ ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ترقی محض نیت سے نہیں ہوتی ہے، ترقی کے لیے قربانیاں دینی ہوتی ہیں، آج کل ہم اپنے ملک کے جو حالات دیکھ رہے ہیں اس میں بہت ضروری ہے کہ ہم ایک قربانی کے جذبے کے ساتھ آگے چلیں، سب اکٹھے ہو کر چلیں‘۔
’یقین دلاتے ہیں عین آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کریں گے‘
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’ہم آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ جو اختلافات ہیں وہ دور کریں، یہ وقت ایسا ہے یہ سلسلہ بڑھے اور اپنے فیصلوں پر ہم یقین دلاتے ہیں عین آئین کے مطابق اور جو قانون میں وضع ہے اس کے مطابق فیصلہ کریں گے‘۔
فیصلوں سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’اب تک جو بھی فیصلے کیے ہیں خواہ وہ متنازع ہیں یا مقبول ہیں، اس میں ہم نے آئین کے نفاذ کی کوشش کی ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس صوبے اور باقی صوبوں سمیت پورے خطے میں ایک چیز جس کا آئین بہت زور دیتا ہے وہ یہ ہے کہ ریاست کی ہستی اور وجود ایک ماں کی طرح ہے، ریاست کو اپنے شہریوں کی خدمت اور حفاظت کرنی ہے اور اس کے لیے اداروں کا ہونا بہت ضروری ہے‘۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’اداروں کو محفوظ کرنا اور ان کو تقویت دینا آئین کی بہت بڑی ترجیح ہے اور بطور عدالت ہمارا فرض یہ ہے کہ آئین کے ان تمام نکات کا نفاذ کرتے ہوئے قومی اداروں کا تحفظ کریں‘۔
تقریب سے خطاب میں ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ان میں سویلین ادارے بھی ہیں اور دوسرے ادارے بھی ہیں لیکن بڑی بات یہ ہے کہ ہم سب کا ایک فرض ہے کہ ہمیں عوام الناس کی خدمت کرنی ہے‘۔
’بنیادی حقوق کا تحفظ عدالت کا کام ہے‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’آپ کے تمام بنیادی حقوق وہ ریاست کے متعلق ہیں، آپ کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنا عدالت کا کام ہے اور اس پر نفاذ کا کام ریاست کا ہے لیکن اس سارے عمل میں جو ضروری بات ہے وہ یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ایک دوسرے کے ساتھ ہمارا تعاون، لحاظ اور ادب ہو، قانون کا لحاظ ہو، عدالت کا احترام ہو، جس نظم کے آپ عادی ہیں، عوام الناس کو بھی یہی دیکھنا چاہیے کیا انداز ہے، جس میں آپ عدالت جاتے ہیں‘۔
’قانون اور عدالت کا احترام نہیں ہوگا تو افراتفری ہوگی‘
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ’ہم سچ بتائیں کہ اللہ نے ابھی تک ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کو محفوظ رکھا ہے لیکن ہمارے دل میں بہت تکلیف ہوتی ہے جب ہماری ضلعی عدلیہ میں لوگ جاکر بدتمیزی کرتے ہیں، یہ قابل قبول نہیں ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم بار کے اراکین سے درخواست کریں گے کہ آپ نے عوام الناس کو یہ پیغام دینا ہے کہ یہ کیا طریقہ ہے، اگر قانون اور عدالت کا احترام نہیں ہوگا تو افراتفری ہوگی‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’آپ نے کہا تھا ہمارے ارجنٹ مقدمات نہیں لگ رہے ہیں، ہم نے پھر اس کے لیے ارجنٹ درخواست کا ایک فارم بنایا، جس میں آپ نے بتانا ہے کہ کون سی ارجنسی ہے، جس کے سبب آپ فوری سماعت چاہتے ہیں‘۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہمارے پاس سپریم کورٹ میں کُل 17 جج ہوتے ہیں، آج کل 15 ہیں، ہمارے 5 یا 6 بینچز ہوتے ہیں، ان بینچز کے سامنے ہزاروں کی تعداد میں مقدمات فائل ہوتے ہیں تو ارجنٹ درخواست پر مشکل ہوجاتا ہے، ہائی کورٹ کی طرح ہم نہیں کرسکتے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’سب سے بالا مقدمات آزادی کے ہیں، لوگ جیلوں میں، ضمانت کے معاملات ہیں، ان کو ہم نے ارجنٹ سننا ہے، دوسری بات یہ ہے کہ فوجداری مقدمات میں لوگ برسوں سے قید میں ہیں، ان کی اپیلیں ہمارے پاس اب آرہی ہیں تو ہم دیکھتے ہیں انہیں جیل میں کتنا دورانیہ ہوگیا ہے، ہم ان کو اہمیت دیتے ہیں تاکہ ان کا جلدی فیصلہ ہو‘۔
’سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوا‘
سپریم کورٹ میں مقدمات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ ’تیسرے مقدمات سول ہیں، جس کا ہم اہمیت کے حوالے سے اندازہ لگاتے ہیں، سپریم کورٹ میں ہم بنیادی طور پر قانون کے نکات طے کرتے ہیں اور حقائق کے تنازعات میں جانا نہیں چاہتے ہیں، عبوری معاملات کا صرف اس وقت دیکھتے ہیں جب قانونی سوال کھڑا ہو اور قانون کی خلاف ورزی کی بات ہو کہ سامنے نظر آرہا ہو کہ اس فیصلے نے قانون پلٹ دیا ہے تو اس میں ہم مداخلت کرکے فوری سنتے ہیں، جہاں تسلسل ہو وہاں اتنی اہمیت نہیں دیتے ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ہم اس لیے کرتے ہیں کیونکہ سپریم کورٹ کو یہ اختیار ہونا چاہیے کہ کون سے سوالات اہم ہیں اور کون سے سوالات جو اتنے اہم نہیں ہیں‘۔
شرکا سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ ’صورت حال اس لیے بہتر ہونی چاہیے کیونکہ ہم نے ویڈیو لنک کی سہولت لگائی ہے، کراچی، لاہور اور پشاور سے بہت وکلا اس کا استعمال کرتے ہیں‘۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’ہمارے پاس 2021 میں سب سے زیادہ مقدمات ہوئے تھے، جو تقریباً 22 ہزار تھے اور اس سال ہمارا ڈسپوزل کم تھا، کچھ کووڈ کے اثرات تھے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’2022 اور 2023 میں مقدمات 25 سے 26 ہزار بڑھ گئے ہیں، ہمارا سب سے زیادہ ڈسپوزل کا ریکارڈ 2018 میں تھا اور وہ 17 ہزار کیسز ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے اس سال ساڑھے 24 ہزار مقدمات کا فیصلہ کیا اور تقریباً 45 فیصد زیادہ ڈسپوزل کیا لیکن اس کا فائدہ کیا کیونکہ مقدمات بڑھ گئے تو ہم ابھی وہیں کھڑے ہیں، پچھلے برسوں میں پینڈنسی ہر سال بڑھ رہی تھی لیکن اس سال بڑھی نہیں ہے اور وہی قائم ہے، اس سلسلے میں امید کرتے ہیں آئندہ کمی ہوگی‘۔
’قانون کی بالادستی کو فروغ دینا ہے‘
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’قانون اور اصول کی بات لائیں ہم ضرور سنیں گے، جیسے آپ کے دلائل میں قانون کا حوالہ ہوگا تو سپریم کورٹ اس کے حل کے لیے کوششیں کرے گا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’قانون کی بالادستی کو فروغ دینا ہے، قانون کی بالادستی اچھے اور ترقی پذیر معاشرے کی نشانی ہے اور ہمارے اسلامی معاشرے کی بھی بہت بڑی نشانی ہے‘۔
وکلا کو مخاطب کرکے چیف جسٹس نے کہا کہ ’وہ لوگ جو قانون کی بالادستی کے خلاف جا رہے ہیں، ان کو آپ منع کریں، امر بالمعروف و نہی عن المنکر، سمجھ لیں قانون کی بالادستی معروف امر ہے، اس پر عمل کریں اور فروغ دیں‘۔