بلوچستان حکومت نے کم عمری کی شادیوں کی روک تھام کے قانون کا مسودہ تیار کرلیا
بلوچستان حکومت نے وفاقی شرعی عدالت (ایف ایس سی) کو آگاہ کیا کہ صوبے میں کم عمری کی شادی کو کالعدم قرار دینے کے لیے بلوچستان چائلڈ میرج پروہیبیشن ایکٹ کے نام سے ایک قانون کا مسودہ تیار کیا گیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عدالت کو بتایا گیا کہ بل جلد منظوری کے لیے صوبائی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔
یہ معلومات چیف جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور اور جسٹس خادم حسین ایم شیخ پر مشتمل دو رکنی بینچ کے سامنے خضدار میں 5 سالہ بچی کی جبری شادی سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران شیئر کی گئی۔
وفاقی شرعی عدالت نے اکتوبر میں ان اطلاعات کے بعد از خود سماعت شروع کی تھی کہ خضدار کے رہائشی محمد نے قبائلی سرداروں کے دباؤ پر اپنی 5 سالہ بیٹی کی شادی کر دی تھی۔
یہ رپورٹس تھانہ خضدار میں درج ایف آئی آر پر مبنی تھیں۔
یہ مقدمہ 1929 کے بچوں کی شادی کی روک تھام کے قانون کے سیکشن 1-6 کے تحت درج کیا گیا تھا، جس میں ایسے افراد کے لیے 6 ماہ تک کی سزا کا تعین کیا گیا تھا جو بچے کی شادی کا اہتمام کرتے ہیں اور سیکشن 34 کے تحت، جو متعدد افراد کے مشترکہ ارادہ سے ذریعے کیے گئے افعال سے متعلق ہے۔
شریعت کورٹ کے چیف جسٹس ڈاکٹر انور نے بچوں کی متعدد شادیوں کی رپورٹس کو دیکھنے کے بعد ازخود نوٹس اس بنیاد پر لیا تھا کہ کم عمری کی شادی غیر اسلامی اور آئین کے خلاف ہے۔
وفاقی زرعی عدالت کے مطابق پاکستان کے بہت سے حصوں میں یہ ظالمانہ، غیر اسلامی رسم پائی جاتی ہے جہاں قتل سمیت تنازعات ختم کرنے کے معاوضے کے طور پر لڑکیوں کی شادی یا غلامی کے طور پر انہیں کسی مظلوم خاندان کو دے دیا جاتا ہے۔
بلوچستان حکومت کے لا افسر محمد فرید ڈوگر نے عدالت کو بتایا کہ ایف ایس سی کے ازخود نوٹس کے بعد صوبائی حکومت نے صوبے میں کم عمری کی شادی کو روکنے کے لیے ایک قانون کا مسودہ تیار کیا ہے۔
مجوزہ قانون کا مقصد صوبے میں بچوں کی شادی کو روکنا اور بچوں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔
قانون کا مسودہ صوبائی حکومت نے خواتین کی حیثیت سے متعلق کمیشن اور محکمہ سماجی بہبود کی مشاورت سے تیار کیا ہے۔
سندھ کے قانون کے خلاف درخواست مسترد
یاد رہے کہ 6 مارچ کو وفاقی شرعی عدالت نے ایک شہری کی جانب سے سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 2013 کے خلاف دائر درخواست کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا تھا کہ یہ ایکٹ اسلام کے احکام کے مطابق ہے اور اس سے آئینی یا اسلامی دفعات کی خلاف ورزی نہیں ہوئی ہے۔
سندھ میں یہ قانون شادی کے لیے کم از کم عمر کی حد مقرر کرکے بچوں کی شادیوں کو روکنے، مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے شادی کی کم از کم عمر 18 سال مقرر کرکے بچوں کے حقوق کے تحفظ کو فروغ دینے کے لیے بنایا گیا تھا۔
شرعی عدالت نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ شادی کے لیے کم از کم عمر کی حد مقرر کرنا ’مباح‘ (جائز) ہے، لیکن لازمی (فرض) نہیں۔
وفاقی شرعی عدالت نے وضاحت کی کہ ریاست یا حکومت کی جانب سے شادی کے لیے عمر کی حد مقرر کرنا اسلام کے احکام کے خلاف نہیں ہے، جیسا کہ قرآن اور سنت میں بیان کیا گیا ہے۔
اس میں مزید کہا گیا کہ شریعت کے اہداف (مقصد الشریعہ) کی روشنی میں ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک شہری کی جسمانی اور ذہنی صحت کی حفاظت کرے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ ریاست اسلامی قانون کے تصور کے تحت بچوں کی شادی سے منسلک نقصان یا برائی کے ذرائع کو روکنے کے لیے کسی فرد، یا افراد کے ایک زمرے کے تحفظ کے لیے اقدامات اور کم از کم حد مقرر کر سکتی ہے۔