بھارتی وزیر داخلہ نے پلوامہ حملے سے متعلق مقبوضہ کشمیر کے سابق گورنر کے دعووں کو چیلنج کردیا
بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت نے پلوامہ حملے میں ایسا کچھ نہیں کیا جس کو چھپایا جائے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کا بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب بھارتی زیر قبضہ کشمیر کے سابق گورنر ستیا پال ملک نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ نریندر مودی نے پلوامہ حملے سے متعلق حقائق عوام سے چھپائے۔
خیال رہے کہ نشریاتی ادارے ’دی وائر‘ کو دیے گئے انٹرویو میں ستیا پال ملک نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے پلوامہ حملے کے وقت فوری طور پر تسلیم کیا تھا کہ نریندر مودی اپنی حکومت اور بی جے پی کے مفاد کے لیے اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کرنا چاہتا ہے۔
واضح رہے کہ بھارتی زیر قبضہ جموں اور کشمیر کے علاقے پلوامہ میں بھارتی فوج کے قافلے پر حملے کے وقت ستیا پال ملک وہاں کے گورنر تھے جن کو بی جے پی نے ہی تعینات کیا تھا۔
’دی وائر‘ کو دیے گئے انٹرویو میں جموں اور کشمیر کے سابق گورنر ستیا پال ملک نے کھل کر ان غلطیوں کا اعتراف کیا جن کی وجہ سے 2019 کے پلوامہ حملے میں وزیر اعظم نریندر مودی اور قومی سلامتی ایجنسی کے سربراہ اجیت ڈوول کی طرف سے انہیں اس معاملے پر خاموش رہنے کی ہدایات کی گئی تھیں۔
سابق گورنر نے چونکا دینے والے اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ نریندر مودی کی حکومت کی طرف جموں سے سری نگر تک طیارے کے ذریعے سفر کرنے کی درخواست مسترد کرنے کے بعد سینٹرل ریزرو پولیس فورس حملے کے لیے آسان ہدف تھی جنہوں نے روڈ کے ذریعے سفر کیا تھا۔
انہوں نے انکشاف کیا تھا کہ پلوامہ میں سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) کے قافلے پر حملہ بھارتی نظام بالخصوص سی آر پی ایف اور وزارت داخلہ کی نااہلی اور لاپروائی کا نتیجہ تھا۔
سابق گورنر نے یہ بھی کہا تھا کہ کہ کس طرح سی آر پی ایف نے اپنے اہلکاروں کو لے جانے کے لیے طیارہ طلب کیا تھا لیکن وزارت داخلہ نے اس سے انکار کر دیا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ نریندر مودی نے انہیں پلوامہ حملے کے فوراً بعد کاربیٹ پارک کے باہر سے بلایا اور ان سے کہا کہ اس بارے میں چپ رہیں اور کسی کو نہ بتائیں۔
سابق گورنر نے یہ بھی کہا تھا کہ قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول نے بھی ان سے خاموش رہنے کا کہا تھا، مزید کہا کہ انہیں فوراً احساس ہو گیا تھا کہ ان کا مقصد پاکستان پر الزام لگانا اور حکومت اور بی جے پی کو انتخاب میں فائدہ پہنچانا ہے۔
رواں ہفتے دی وائر نے رپورٹ کیا کہ سابق گورنر کو بھارت کی تفتیشی ایجنسی سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) نے 28 اپریل کو پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا ہے۔
آج بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے سابق گورنر کے دعووں پر انڈیا ٹوڈے کے ٹی وی پروگرام میں بات کرتے ہوئے کہا کہ سابق گورنر کے بیان کی ساکھ پر سوال کرنے کے کی ضرورت ہے۔
امیت شاہ نے کہا کہ میں ملکی عوام کو یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا جس کو چھپانے کی ضرورت ہو۔
انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر عوامی فورم پر بات نہیں ہونی چاہیے، اگر ان (سابق گورنر) کے پاس بے ضابطگیوں کی معلومات تھی تو انہیں اپنے دور میں اس پر بات کرنی چاہیے تھی، اب وہ ایسے دعوے کیوں کر رہے ہیں، ان کی ساکھ پر تفتیش کرنے کی ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ جموں اور کشمیر کے سابق گورنر کے دعووں کے بعد بی جے پی حکومت کی طرف سے یہ پہلا بیان سامنے آیا ہے۔
پلوامہ حملہ
14 فروری 2019 کو مقبوضہ کشمیر میں کار بم دھماکے کے نتیجے میں 44 بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے تھے جس کے بعد نئی دہلی نے کسی بھی طرح کی تحقیقات کیے بغیر اس کا الزام پاکستان پر عائد کردیا تھا جسے اسلام آباد نے یکسر مسترد کردیا تھا۔
بھارت نے الزام لگایا تھا کہ یہ حملہ کالعدم جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کی جانب سے کروایا گیا، ساتھ ہی انہوں نے اس حملے کے ماسٹر مائنڈ کی ہلاکت کا دعویٰ بھی کیا تھا۔
تاہم بغیر کسی ثبوت کے بھارت نے اس معاملے کو پاکستان سے جوڑ دیا تھا اور پاکستان سے پسندیدہ ترین ملک کا درجہ واپس لے لیا تھا، جبکہ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کی نشریات پر بھی پابندی عائد کردی تھی۔
اس کے علاوہ بھارتی درآمدکنندگان نے پاکستانی سیمنٹ کی درآمد روک دی تھی جس کے نتیجے میں پاکستان کی سیمنٹ فیکٹریوں کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا۔
بھارت میں اور مقبوضہ کشمیر کے کئی علاقوں میں ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے مسلمان شہریوں کے گھروں اور املاک کو نشانہ بنایا گیا تھا جس کے نتیجے میں درجنوں مسلمان خاندان محفوظ مقامات کی جانب منتقل ہونے پر مجبور ہوگئے تھے۔
دوسری جانب اس وقت کے وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارتی الزامات کو مسترد کرتے ہوئے جواب دیا تھا کہ پاکستان پر الزام لگانا ایک منٹ کی بات ہے، بھارت اپنا ملبہ پاکستان پر پھینک رہا ہے اور اب دنیا اس سے قائل نہیں ہوگی۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دنیا نے پلوامہ میں ہونے والے حملے کی مذمت کی ہے اور کرنی بھی چاہیے تھی کیونکہ اس میں انسانی جانوں کا ضیاع ہوا ہے۔
تاہم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بھارت سے آوازیں آرہی ہیں، جیسا کے مقبوضہ جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ نے کہا کہ پاکستان پر الزام لگانا ’آسان راستہ‘ ہے لیکن بھارتی انتظامیہ یہ بھی تو دیکھے کے مقبوضہ کشمیر میں کیا ہو رہا ہے۔
صورتحال اس وقت خراب ہوئی جب بھارتی فضائیہ نے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی، جس پر پاک فضائیہ فوری طور پر حرکت میں آئی اور بھارتی طیارے واپس چلے گئے۔
بعد ازاں، پاک فوج نے بھارت کو خبردار کیا کہ اب وہ پاکستان کے جواب کا انتظار کرے جو انہیں حیران کردے گا، ہمارا ردِعمل بہت مختلف ہوگا، اس کے لیے جگہ اور وقت کا تعین ہم خود کریں گے۔
اس کے بعد 27 فروری کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور نے بتایا کہ پاک فضائیہ نے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے بھارتی فورسز کے 2 لڑاکا طیاروں کو مار گرایا۔
ٹوئٹ میں مزید کہا گیا کہ ایک بھارتی لڑاکا طیارہ مقبوضہ کشمیر میں گر کر تباہ ہوا جبکہ دوسرا طیارہ پاکستان کے علاقے آزاد کشمیر میں گرا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ پاک فوج نے ایک بھارتی پائلٹ کو گرفتار کرلیا ہے۔