افغان طالبان داعش کے خلاف امریکا کی مدد کیلئے تیار ہیں، رپورٹ
امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے دعویٰ کیا ہے کہ افغان طالبان عسکریت پسند گروہ داعش کے خلاف جنگ میں امریکا کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں کیونکہ وہ انہیں اپنے ’پاور بیس‘ کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ میں امریکی دفاعی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ افغان حکومت اگست 2021 سے داعش کے خلاف اس وقت سے لڑ رہی ہے جب انہوں نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ 20 سالہ طویل جنگ کے بعد افغانستان کا اقتدار سنبھال لیا تھا۔
ایک سینیئر دفاعی عہدیدار نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ ’دونوں گروہ ایک دوسرے کے خلاف کھلے عام جنگ کر رہے ہیں، داعش کی جانب سے افغان طالبان پر حملہ کیا جارہا ہے جبکہ افغان طالبان کی جانب سے ملک بھر میں داعش کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’میں یہ ہرگز نہیں کہنا چاہوں گا کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ طالبان جیسے گروہ کو سونپ دی ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ انہوں نے داعش پر دباؤ ڈال رکھا ہے، حیران کن طور پر اس معاملے میں ہمارے مشترکہ اہداف ہیں‘۔
واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کا کچھ حصہ پینٹاگون کے لیک ہونے والے ایک جائزے پر مبنی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’داعش ایک بار پھر افغانستان کو امریکا، یورپ اور ایشیا کے خلاف سازشوں کے لیے میدان کے طور پر استعمال کر رہی ہے‘، دوبارہ پیدا ہونے والے اِس خطرے کو رپورٹ میں سیکیورٹی کے بڑھتے ہوئے خدشات کے طور پر بیان کیا گیا۔
اس حوالے سے تبصرے کے لیے ایک امریکی دفاعی عہدیدار سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے تسلیم کیا کہ ’افغان طالبان نے 2021 میں اقتدار سنبھالنے سے اب تک مسلسل داعش پر نظر رکھی ہوئی ہے‘۔
پینٹاگون کی جائزہ رپورٹ میں گرجا گھروں، سفارت خانوں، کاروباری مراکز اور ورلڈ کپ فٹ بال ٹورنامنٹ کو نشانہ بنانے کے مخصوص منصوبوں کا حوالہ دیا گیا۔
واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ وائٹ ہاؤس نے پینٹاگون کی اس جائزہ رپورٹ کی تصدیق سے انکار کر دیا ہے حالانکہ اس پر ٹاپ سیکریٹ کا لیبل لگایا گیا ہے اور اس پر محکمہ دفاع کی تنظیموں کا لوگو بھی ہے۔
موجودہ اور سابق امریکی عہدیداروں نے ’واشنگٹن پوسٹ‘ کو بتایا کہ ’لیک ہونے والی رپورٹیں ان انتباہات کی تائید کرتی ہیں کہ افغانستان میں دہشت گرد سیل دوبارہ زندہ ہو سکتے ہیں‘۔
تاہم بائیڈن انتظامیہ نے ’واشنگٹن پوسٹ‘ کو دیے گئے ایک بیان میں اپنی انسداد دہشت گردی کی پالیسیوں کا دفاع کیا۔
قومی سلامتی کونسل کی ترجمان ایڈرین واٹسن نے ’واشنگٹن پوسٹ‘ کو بتایا کہ ’امریکا فوجیوں کو مستقل تعینات کیے بغیر دہشت گردوں کا میدان سے قلع قمع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے‘۔
محکمہ خارجہ کے انسداد دہشت گردی کے کوآرڈینیٹر نیتھن سیلز نے ’واشنگٹن پوسٹ‘ کو بتایا کہ ’داعش خطے میں امریکی مفادات اور بالآخر خود امریکا پر حملہ کرنے کا عزم رکھتی ہے‘۔
انہوں نے واشنگٹن پر زور دیا کہ داعش کی قیادت اور انفرااسٹرکچر پر حملہ کرنے کے لیے فوری منصوبہ بنایا جائے۔
دوسری جانب افغان طالبان نے امریکی انٹیلی جنس کے ان خدشات کو بےبنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔
دوحہ میں اقوام متحدہ کے لیے طالبان کے نامزد نمائندے سہیل شاہین نے نے کہا کہ ’داعش کو زیر کیا جا چکا ہے، واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ افغانستان کے زمینی حقائق کی عکاسی نہیں کرتی‘۔
انہوں نے کہا کہ ’اس طرح کی رپورٹیں انہیں لکھنے والوں کی ذاتی خواہشات کی عکاسی کرتی ہیں، حقیقت یہ ہے کہ داعش افغانستان میں وجود نہیں رکھتی جیسے کبھی دورِ تسلط میں ہوا کرتی تھی ’۔