مارچ میں بجلی کی سستی پیداوار کے باوجود ڈسکوز کی 10 ارب روپے اضافی وصولی کیلئے درخواست
مقامی سطح پر سستے ایندھن سے 63 فیصد سے زیادہ بجلی کی پیداوار اور حالیہ مہینوں میں بنیادی ٹیرف میں غیر معمولی اضافے کے باوجود سابق واپڈا ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (ڈسکوز) نے صارفین سے مئی میں ایک روپے 17 پیسے فی یونٹ اضافی فیول لاگت کی مد میں تقریباً 10 ارب روپے مزید وصول کرنے کے لیے درخواست دے دی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے ڈسکوز کی بذریعہ سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) دائر کردہ ٹیرف پٹیشن کو منظور کرتے ہوئے 3 مئی کو عوامی سماعت طلب کرلی تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ آیا ماہانہ فیول لاگت ایڈجسٹمنٹ (ایف سی اے) میکانزم کے تحت ٹیرف میں مجوزہ اضافہ درست ہے یا نہیں۔
رپورٹ کے مطابق منظوری ملنے پر ڈسکوز اپنے صارفین سے مارچ میں استعمال کی گئی بجلی کی مد میں تقریباً 9 ارب 93 کروڑ روپے کی اضافی رقم وصول کریں گے حالانکہ بجلی کی پیداوار میں مقامی سستے ایندھن کا حصہ 63.5 فیصد رہا۔
ایف سی اے میں اضافہ بنیادی اوسط ٹیرف میں 7 روپے فی یونٹ سے زائد اضافے، سلسلہ وار سرچارجز اور فرنس آئل اور مائع قدرتی گیس (ایل این جی) جیسے درآمدی ایندھن کی لاگت میں کمی کے باوجود ہوا ہے۔
مارچ میں مجموعی طور پر نیشنل گرڈ میں سب سے بڑا 22.90 فیصد کا حصہ ہائیڈرو پاور اور نیوکلیئر جنریشن سے آیا، مارچ میں ہائیڈرو پاور سے بجلی کی پیداوار فروری کے 26.46 فیصد کے مقابلے میں نسبتاً کم رہی، اسی طرح جوہری توانائی کا حصہ بھی فروری میں 24.28 فیصد کے مقابلے میں کم رہا، ہائیڈرو پاور کی کوئی ایندھن لاگت نہیں ہے جبکہ جوہری توانائی کے لیے ایندھن کی لاگت صرف 1.08 روپے فی یونٹ ہے۔
مارچ میں نیشنل گرڈ میں تیسرا بڑا حصہ ایل این جی سے حاصل کردہ بجلی سے 20.42 فیصد پر رہا جبکہ فروری میں یہ 18.86 فیصد تھا، جس کے بعد کول پاور پلانٹس کا حصہ 15.3 فیصد رہا جبکہ فروری میں یہ 14.07 فیصد تھا، اس کے علاوہ مقامی قدرتی گیس سے بجلی کی فراہمی بہتر ہو کر 66 فیصد تک ہو گئی جو فروری میں 11 فیصد تھی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ فرنس آئل سے بجلی کی پیداوار کی لاگت 21 روپے 27 پیسے فی یونٹ تھی جو آر ایل این جی سے پیدا کردہ بجلی کے 24 روپے 31 پیسے فی یونٹ سے کم ہے، لیکن حکام نے ایل این جی سے 20.42 فیصد کے مقابلے فرنس آئل سے صرف 0.46 فیصد بجلی حاصل کی۔
سی پی پی اے نے ڈسکوز کی جانب سے دعویٰ کیا کہ مارچ میں صارفین سے ایندھن کی مد میں قیمت 8 روپے 22 پیسے فی یونٹ وصول کی گئی لیکن اصل لاگت 9 روپے 89 پیسے فی یونٹ تھی، اس لیے فی یونٹ ایک روپے 17 پیسے اضافی چارج کرنا ہوں گے۔
مقامی گیس سے پیدا کردہ بجلی کی لاگت مارچ میں قدرے بڑھ کر 11 روپے 26 پیسے فی یونٹ ہو گئی، جو فروری میں 10 روپے 7 پیسے فی یونٹ اور دسمبر 2022 میں 10 روپے 50 پیسے فی یونٹ تھی۔
رپورٹ کے مطابق فرنس آئل سے بجلی کی پیداواری لاگت نمایاں طور پر کمی کے بعد 21 روپے 27 پیسے فی یونٹ رہی، جو کچھ ماہ قبل 34 روپے فی یونٹ تھی، جس کی بنیادی وجہ تیل کی بین الاقوامی قیمتوں میں تنزلی ہے۔
دوسری طرف کوئلے سے چلنے والے پلانٹس سے حاصل کردہ بجلی کی پیداواری لاگت بھی مارچ میں نمایاں طور پر گر کر 8 روپے 68 پیسے فی یونٹ رہ گئی، جس کی فی یونٹ لاگت فروری میں 12 روپے 57 پیسے اور دسمبر 2022 میں 11.5 روپے فی یونٹ تھی۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ تین قابل تجدید توانائی کے ذرائع (ہوا، بیگاس اور شمسی توانائی) نے مل کر مارچ میں نیشنل گرڈ میں تقریباً 5 فیصد کا حصہ ڈالا، جو فروری میں 3.54 فیصد اور رواں برس جنوری میں تقریباً 4.54 فیصد تھا، ہوا اور شمسی توانائی سے حاصل بجلی پر ایندھن کی کوئی قیمت نہیں ہوتی جبکہ بیگاس کی فی یونٹ لاگت فروری کے 5 روپے 35 پیسے کے مقابلے میں مارچ میں 5 روپے 98 پیسے رہی۔
سی پی پی اے نے دعویٰ کیا کہ 71 ارب 83 کروڑ روپے کی اوسط لاگت سے تقریباً 8 ہزار 741 گیگا واٹ بجلی پیدا کی اور تقریباً 8 ہزار 459 گیگا واٹ ڈسکوز کو 83 ارب 63 کروڑ کی اوسط ایندھن لاگت پر فراہم کرنے کا تخمینہ لگایا گیا۔