• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

’جھانسے میں نہیں آئیں گے‘، عمران خان کی سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی پر احتجاج کی دھمکی

شائع May 1, 2023 اپ ڈیٹ May 2, 2023
عمران خان نے کہا کہ یہ سمجھتے ہیں ہم ان کے اس بد دیانت منصوبے میں آجائیں گے کہ ستمبر میں الیکشن ہوگا تو یہ غلط فہمی میں نہ رہیں—فوٹو: پی ٹی آئی ٹوئتر
عمران خان نے کہا کہ یہ سمجھتے ہیں ہم ان کے اس بد دیانت منصوبے میں آجائیں گے کہ ستمبر میں الیکشن ہوگا تو یہ غلط فہمی میں نہ رہیں—فوٹو: پی ٹی آئی ٹوئتر

سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ انتخابات میں تاخیر کے حکومتی کے بد دیانت منصوبے میں نہیں پھنسےگی اور اگر سپریم کورٹ کے 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کرانے کے حکم کی خلاف ورزی کی گئی تو پارٹی سڑکوں پر نکلے گی۔

عالمی یوم مزدور کی مناسبت سے نکالی گئی ریلی کے دوران خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ اگر حکومت 14 مئی سے پہلے اسمبلیاں تحلیل کرتی ہے تو ہم ملک بھر میں ایک ساتھ الیکشن کے لیے صرف اس لیے تیار ہیں کیونکہ چیف جسٹس ہمیں کہہ رہے ہیں۔

سابق ویراعظم نے کہا کہ لیکن اگر یہ بہانے کر رہے ہیں کہ بجٹ دینے کے بعد الیکشن ہوگا، اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کے اس بد دیانت منصوبے میں آجائیں گے، پھنس جائیں گے اور انتظار کریں گے کہ ستمبر میں الیکشن ہوگا تو یہ کسی غلط فہمی میں نہ رہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر 14 مئی سے قبل اسمبلیاں تحلیل نہیں کی گئیں تو ہم سپریم کورٹ سے کہیں گے کہ ہمیں پنجاب اور خیبر پختونخوا کا الیکشن چاہیے، کیونکہ آئین کہتا ہے کہ 90 روز میں الیکشن ہوں، یہ ہمارا آئینی حق ہے۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ اگر یہ اس پر متفق نہیں ہوئے، اگر انہوں نے الیکشن میں شکست کے خوف سے سپریم کورٹ کا فیصلہ نہ مانا، سپریم کورٹ اور اس کے ججوں کے خلاف گئے، آئین توڑا تو اس کے بعد تحریک انصاف سڑکوں پر نکلے گی، پی ٹی آئی سپریم کورٹ، چیف جسٹس اور ججوں کے ساتھ کھڑی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ آج تک ہم نے ملک کے معاشی حالات کی وجہ سے پر امن احتجاج کیا ہے لیکن اگر انہوں نے آئین توڑا تو اس کے بعد پاکستان میں بچے گا کیا، اس کے بعد تو معاشی حالات اور بگڑ جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ صرف الیکشن میں شکست کے خوف سے اور عمران خان کو باہر رکھنے کے لیے یہ اور ان کے ہینڈلر الیکشن نہیں کرائیں گے تو پھر میں ان حکمرانوں اور ان کے ہینڈلر کو خبردار کرتا ہوں کہ اس کے بعد میں اور میری قوم سڑکوں پر نکلے گی اور ملک میں قانون کی حکمرانی قائم کرائیں گے، ایک ہفتے کے اندر صورت حال واضح ہوجائے گی، اس لیے آپ لوگ تیاری کرلیں۔

وفاقی وزرا مذاکرات میں رکاوٹیں کیوں ڈال رہے ہیں، شاہ محمود قریشی

فوٹو:ڈانیوز
فوٹو:ڈانیوز

قبل ازیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے سوال اٹھایا کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف، احسن اقبال اور جاوید لطیف جاری مذاکرات کی راہ میں کیوں رکاوٹ بن رہے ہیں، کیا وہ حکومت کا حصہ نہیں ہیں۔

لاہور میں پی ٹی آئی کی ریلی کے دوران میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے زور دے کر کہا کہ وہ کل پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے ساتھ مذاکرات کے تیسرے دور میں شرکت کے لیے تیار ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم تو تیار ہیں لیکن آج میں حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے رکن وزیر خزانہ اسحٰق ڈار سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ ایک جانب آپ مسلم لیگ (ن) کی سینئر قیادت کی نمائندگی کر رہے ہیں، آپ کو نواز شریف کا اعتماد ہے اور آپ ٹیبل پر مذاکرات کے لیے بیٹھے ہیں، مجھے بتائیں کیا خواجہ آصف، احسن اقبال اور جاوید لطیف آپ کی پارٹی کا حصہ نہیں ہیں؟

انہوں نے کہا کہ اور اگر وہ آپ کی پارٹی کا حصہ ہیں تو پھر مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ کیوں بن رہے ہیں؟ انہوں نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے بارے میں بھی سوال اٹھایا کہ کیا وہ پی ڈی ایم کے صدر نہیں ہیں، اگر ہیں تو پھر وہ کیوں مذاکرات سے انکاری ہیں۔

سابق صدر آصف علی زرداری کو مخاطب کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ آئین پر عمل کرنے اور اس کو مرتب کرنے کا دعویٰ کیا، ہم تسلیم کرتے ہیں کہ پی پی پی نے آئین بنانے میں کردار ادا کیا لیکن پھر آج آپ آئین توڑنے والوں کے ساتھ کیوں کھڑے ہیں؟ آج آپ آئین شکنوں کی صفوں میں کھڑے اچھے نہیں لگ رہے، آج آئین بنانے والے آئین توڑ رہے ہیں، کہتا ہوں کہ اس گھر کو آگ لگ گئی، گھر کے چراغ سے۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ پوری قوم دیکھ رہی ہے کہ ایک طرف آپ آئین کا درس دیتے ہیں اور دوسری طرف آئین پر حملہ ہو رہا ہے، پارلیمنٹ کے اندر ججوں کے کنڈکٹ پر تنقید ہو رہی ہے، ذاتی جملے کسے جا رہے ہیں، ذاتی حملے کیے جا رہے ہیں اور آپ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام اب اتنے سادہ نہیں ہیں کہ آپ اپنے لوگوں سے مضامین لکھوالیں اور سرکاری میڈیا کے ذریعے رائے عامہ ہموار کرلیں، آج ہر شہری باشعور، باخبر اور پوری طرح حالات سے آگاہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم مذاکرات، الیکشن اور تحریک کے لیے تیار ہیں، چنو، کیا فیصلہ کرنا چاہتے ہو، اس لیے یہ نشستند، گفتند، برخاستند نہیں، ہم اس کو تاخیری حربے کے طور پر استعمال نہیں ہونے دیں گے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کل میں نے دیانت داری کے ساتھ، آپ کا مؤقف سن کر عمران خان سے مشاورت کے بعد ایک تجویز میز پر رکھ دی ہے، میں چاہوں گا کہ مہلت مانگنے والے اسحٰق ڈار اور ان کی ٹیم کل ہماری تجویز پر دو ٹوک مؤقف دے، یہ وقفہ ہم نے نہیں، انہوں نے مانگا۔

انہوں نے کہا کہ آپ ایک جماعت ہیں، آپ کے لیے فیصلہ کرنا آسان ہے، ہم 13 جماعتوں کا اتحاد ہیں، ہمیں 13 قائدین کو یکجا کرنا ہے، ہمیں ماحول سازگار کرنے کے لیے وقت دیجیے، ہم نے وقت دے دیا، آپ کے کہنے پر وقت دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنی تجویز میں پی ڈی ایم کی کئی خواہشات کو پرو دیا ہے، آئین کو سامنے رکھ کر ہم نے جو تجاویز مرتب کی ہیں، میں چاہوں گا کہ کل آپ اس پر دو ٹوک جواب دیں، اگر آپ ہماری تجویز کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں تو ٹھیک ورنہ آپ کی مشکلات کا ہمیں احساس ہے، آپ کی صفوں کے اندر جو دراڑ ہے، اس کا ہمیں احساس ہے۔

انہون نے کہا کہ اگر آپ اتفاق پر نہیں آتے تو پھر مجھے اجازت دیجیے کہ میں چیف جسٹس کے سامنے حاضر ہو کر کھلی عدالت میں پی ٹی آئی کا مطمع نظر، اس کی کوشش و کاوش قوم کے سامنے سپریم کورٹ میں رکھ دوں، پھر فیصلہ آئین کے مطابق ہوگا اور عوام کریں گے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ایک زمانے میں کہا جاتا تھا کہ طاقت کا سر چشمہ عوام ہوتے ہیں، ہم اس کے قائل ہوگئے اور آپ اس سے دور ہوگئے، فیصلہ عوام نے کرنا ہے اور پی ٹی آئی عوام کی کچہری میں جانے کے لیے تیار ہے۔

خیال رہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات سپریم کورٹ کی تجویز پر گزشتہ ہفتے شروع ہوئے تھے جس سے طویل عرصے سے جاری تعطل کا خاتمہ ہوا تھا، مذاکرات کے دو دور کے بعد اب فریقین کے درمیان کل بروز منگل مذاکرات کا تیسرا اور آخری دور متوقع ہے۔

تاہم، مذاکرات کے مثبت نتائج برآمد ہونے کے امکانات بہت کم نظر آ رہے ہیں جبکہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے مذاکرات کے کامیاب نتائج کی راہ ہموار کرنے کے لیے 14 مئی تک قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

حکومت نے عمران خان کے الٹی میٹم کو ناقابل عمل قرار دیا ہے اور ان سے کہا ہے کہ وہ بات چیت کی کامیابی کے لیے لچک کا مظاہرہ کریں۔

قبل ازیں، آج ہی وفاقی وزیر جاوید لطیف نے پی ٹی آئی اور حکمران اتحاد کے درمیان مذاکرات مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’دہشت گردوں‘ اور قومی اداروں کو تباہ کرنے والوں کے ساتھ مذاکرات نہیں ہو سکتے۔

وفاقی وزیر نے کہا تھا کہ ہم پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے کھڑے ہیں لیکن ہمیں مزید مضبوطی سے ہونا ہوگا اور کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے، کبھی دہشت گردوں کے ونگ سے مذاکرات نہیں ہوتے، کبھی پیٹرول بم پھینکنے والوں سے مذاکرات نہیں ہوتے، کبھی عالمی قوتوں کے آلہ کار بننے والوں سے مذاکرات نہیں ہوتے، کبھی اداروں پر چڑھائی کر کے انہیں کمزور کرنے والوں سے مذاکرات نہیں ہوتے، کبھی میر جعفر، میر صادق کہنے والوں سے مذاکرات نہیں ہوتے، کبھی اداروں میں بیٹھے لوگوں کو ساتھ ملا کر پاکستان کے خلاف سازش کرنے والوں سے مذاکرات نہیں ہوتے۔

ایک روز قبل وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا تھا کہ انہیں مذاکرات کا کوئی ’مثبت نتیجہ‘ نظر نہیں آرہا، انہوں نے کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کا نتیجہ کیا نکلے گا جبکہ وہ شرائط عائد کر رہے ہیں۔

ان کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل اور وفاقی وزیر برائے ترقی احسن اقبال نے بھی کہا کہ ہم عمران خان کو بتانا چاہتے ہیں کہ وہ بندوق کی نوک پر مذاکرات نہیں کر سکتے، مذاکرات کی پہلی شرط یہ ہے کہ کوئی پیشی شرائط عائد نہیں کی جائے گی، عمران خان اتنے بے چین ہیں کہ وہ اپنا راستہ یا ہائی وے چاہتے ہیں۔

پی ڈی ایم کے صدر اور سربراہ جے یو آئی (ف) مولانا فضل الرحمٰن نے بھی مذاکرات اور بات چیت سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ پی ٹی آئی سے مذاکرات کا حصہ نہیں بن رہے۔

تاہم پی ٹی آئی کے ساتھ انتخابات کے لیے مسلم لیگ (ن) پر زور ڈالنے والی پیپلز پارٹی اب بھی بات چیت کے حوالے سے پُرامید ہے، پی پی پی کے سینئر رہنما اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی قمر زمان کائرہ نے ڈان کو بتایا کہ مجھے امید ہے کہ 14 مئی تک اسمبلیوں کی تحلیل عمران خان کی جانب سے ایک شرط کے بجائے تجویز ہے البتہ یہ تجویز قابل عمل نہیں، مئی میں قومی اسمبلی تحلیل ہوگئی تو بجٹ کون پیش کرے گا؟ آئی ایم ایف کے ساتھ گفت و شنید اور آئندہ مالی سال کے لیے بجٹ کو نگران سیٹ اَپ پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔

قمر زمان کائرہ نے کہا کہ اس طرح کے مشورے کے باوجود پی پی پی کا خیال ہے کہ اکثریتی فیصلہ غالب ہو گا اور یہ مذاکرات ناکامی پر ختم نہیں ہوں گے۔

انتخابات کے حوالے سے متفقہ فیصلے کے لیے حال ہی میں وزیراعظم شہباز شریف اور عمران خان سے ملاقات کرنے والے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا کہ ہم مذاکرات میں پیش رفت کے لیے پُرامید ہیں کہ وفاقی اتحاد اور پی ٹی آئی دونوں ہی ڈیڈلاک کی طرف نہیں جائیں گے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024