بال پکر سے قومی ٹیم کے کپتان بننے تک سفر کے دوران بابر اعظم نے کیا قربانیاں دیں؟
قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم کا کہنا تھا کہ بال پکر سے لے کر قومی ٹیم کے کپتان بننے تک انہیں بہت کچھ برداشت کرنا پڑا، کافی قربانیاں دیں، اس سفر میں ان کے والد کا بہت اہم کردار تھا۔
کپتان نے پی سی بی براڈکاسٹ کو انٹرویو دیا جہاں انہوں نے اپنے کرکٹ کے سفر کے دوران پیش آنے والے واقعات، محنت اور قربانیوں کے حوالے سے تفصیلی انٹرویو دیا۔
کپتان سے سوال کیا گیا کہ ون ڈے کرکٹ ٹیم میں جب پہلی بار شامل ہوئے تو بابر اعظم کے کیا جذبات تھے؟
بابر اعظم نے کہا کہ جب قومی کرکٹ ٹیم میں شامل ہونے کیلئے پہلی بار کال آئی تو میں فیملی کے ساتھ گھر میں بیٹھا تھا، خبر سننے کے بعد میں اور میرے والدین سمیت پوری فیملی بہت پُرجوش تھی۔
’جب پہلی بار قومی کرکٹ ٹیم کا کھلاڑی بن کر میدان میں اترا تو مجھے وہ دور یاد آگیا جب میں بال پکر کے طور پر کام کرتا تھا۔ ’
انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں جنوبی افریقہ کے خلاف جب ہمارا آخری ٹیسٹ میچ تھا اس وقت پہلی بار میں باؤلنگ کرنے آیا تھا، وہ میرے لیے یادگار لمحہ تھا، اس وقت میری خواہش تھی کہ مجھے بھی پاکستان کیلئے کچھ کرنا اور انٹرنیشنل کھلاڑیوں کے خلاف کھیلنا ہے، بس یہیں سے میں نے اپنا جذبہ بلند کیا اور دن رات محنت کی۔’
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں ٹاپ پلئیرز نیشنل اکیڈمی جاتے تھے، میری بھی خواہش تھی کہ میں وہاں جاؤں لیکن سلکیٹ نہیں ہوسکا، میں نے سوچا اس اکیڈمی میں داخل ہونے کے لیے بہترین پرفارمنس دینی پڑے گی’۔
’میں نے اکیڈمی جانے کے لیے بہت محنت کی، صبح 11 بجے جاتا تھا اور مغرب کے بعدگھر واپس آتا تھا، اس وقت پیسے نہیں ہوتے تھے تو کبھی پیدل اور کبھی بس میں سفر کیا تھا‘۔
بابر اعظم نے کہا کہ جب پہلی بار انٹرنیشنل کرکٹ ٹیم میں شامل ہوتے ہیں تو مختلف احساس ہوتا ہے، لوگوں کی توقعات بڑھ جاتی ہیں، اپنے آپ کو منوانا ہوتا ہے، ٹیم میں لوگوں کے دل جیتنے ہوتے اور بہت دباؤ ہوتا ہے، اس وقت سینئر پلئیرز سے مجھے مدد ملی’
’معلوم ہوا کہ دادی کا انتقال ہوگیا ہے, میچ کے بعد گھر واپس گیا تو جنازہ اٹھ چکا تھا‘
ان کا کہنا تھا کہ اپنے کرئیر کے دوران بہت سی قربانیاں دیں ہیں، جب ٹرائی اینگل سیریز چل رہی تھیں تو فیملی کے قریبی رشتہ دار کا انتقال ہوگیا تھا، ان کے جنازے میں نہیں جاسکا، کپتان نے کہا کہ وہ میرا لیے مشکل وقت تھا، والد سے کہا تھا میں نہیں کھیل سکتا، واپس آرہا ہوں لیکن والد نے منع کردیا کہ نہیں مجھے پاکستان کیلئے کھیلنا ہے۔
بابر نے مزید بتایا کہ جب میں اسلام آباد میں تھا اور میچ کے دوران فیلڈنگ کررہا تھا، تو مجھے معلوم ہوا کہ میرے دادی کا انتقال ہوگیا ہے، لیکن جتنی دیر میں گھر پہنچا تو جنازہ اٹھ چکا تھا،
’ایک وقت تھا جب والد کے پاس بیٹ لینے کےبھی پیسے نہیں تھے‘
کپتان نے کہا کہ میرے کرئیر کے دوران میری فیملی نے بہت قربانیاں دیں ہیں، ایک روز میں نے والد سے فرمائش کی کہ مجھے بیٹ (bat) چاہیے، تو والد نے کہا کہ پیسے نہیں ہیں، اس وقت والدہ نے مجھے تقریباً 3 ہزار روپے دیے اور اسی پیسوں سے بیٹ لیا، اسی بلے سے میں کئی سالوں تک کھیلتا رہا’۔
’والد سے گراؤنڈ کے اندر بھی مار پڑی تھی‘
بابر کا کہنا تھا کہ کرکٹ کے سفر میں والد کا بہت اہم کردار ہے، ہم دونوں ہر میچ دیکھنے جاتے تھے، جب میں غلطی کرتا تھا تو مار بھی پڑتی تھی، یہاں تک کہ گراؤنڈ میں بھی مار پڑی ہے، ان کی یہی سختی میرے لیے بہت مددگار ثابت ہوئی ہیں، میری خوش قسمتی ہے کہ میرے پاس ایسے والدین ہیں۔
بطور کپتان دباؤ سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ہر کوئی سیکھ کر نہیں آتا، ٹرائی کرکے ہی سیکھتے ہیں، میں نے بھی آہستہ آہستہ اپنی کارکردگی کو بہتر بنایا، لوگوں کی باتوں پر توجہ نہیں دیتا، اپنا بہتر کرنے پر توجہ دیتا ہوں۔
بابر نے کپتانی سنبھالنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ جب کپتان بنا تو پہلا سال تھوڑا مشکل تھا کیونکہ اس وقت ایک وقت میں بہت ساری چیزیں چل رہی تھیں’۔
انہوں نے بتایا کہ بطور کپتان میں نے چیزوں کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی، میں نے سیفی بھائی (سرفراز احمد) سے سیکھا کہ وہ ٹیم کو کیسے لے کر چل رہے تھے، میں میدان کے اندر اور باہر ان کا کھلاڑیوں کے ساتھ برتاؤ دیکھتا تھا اور ان سے سوالات پوچھتا تھا اور اسی طرح مجھے مدد ملے ملی’
بابر اعظم نے کہا کہ بطور کپتان آپ پر بہت سی ذمہ داریاں ہوتی ہیں کیونکہ کھلاڑی صرف اپنی بیٹنگ اور فیلڈنگ پر توجہ دیتا ہے لیکن کپتان کو پوری ٹیم کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے، اب میں اپنی ذمہ داریوں پر دباؤ محسوس نہیں کرتا’۔
اپنے کیریئر کے اگلے مقصد کے بارے میں بات کرتے ہوئے بابر نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان ورلڈ کپ جیتے۔