• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس، جسٹس مظاہر علی نقوی کے مالی اثاثوں کی تفصیلات طلب

شائع May 8, 2023
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی — تصویر: سپریم کورٹ ویب سائٹ
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی — تصویر: سپریم کورٹ ویب سائٹ

پارلیمان کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے فیڈرل بورڈ آف روینیو سے سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر علی نقوی کے مالی اثاثوں کی تفصیلات طلب کرلی۔

پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین نور عالم خان کی زیر صدارت ہوا جس میں سپریم کورٹ کے جج مظاہر علی نقوی کے آمدن اور اثاثوں کا معاملہ زیر غور رہا۔

اجلاس میں تین سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا کے چیف سیکرٹریز، سیکریٹری فائنانس اور داخلہ بھی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے جبکہ چیئرمین ایف بی آر اور سیکریٹری قانون و انصاف اجلاس میں شریک ہوئے۔

قومی احتساب بیورو کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین بھی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اجلاس میں غیر حاضر رہے اور نہ پنجاب سے کوئی افسر اجلاس میں شریک ہوا۔

چیئرمین پی اے سی نور عالم خان نے اعلیٰ افسران کی غیر موجودگی پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ کوئی افسر اجلاس میں شریک نہیں ہوتا تو تحریری طور پر پی اے سی کو مطلع کرنا ہوتا ہے۔

نور عالم خان نے کہا کہ جب افسران تشریف نہیں لاتے تو ہم اس ہم اجلاس کو کیسے چلائیں۔

دوران اجلاس پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے سپریم کورٹ کے جج مظاہر علی نقوی کا ریکارڈ پندرہ روز میں طلب کرلیا۔

چیئرمین نور عالم خان نے کہا کہ ایف بی آر ٹیکس ریٹرن، اثاثوں کی تفصیلات ہمیں فراہم کرے اور جو پلاٹس ملے ہیں ان کی تفصیلات بھی فراہم کی جائیں۔

چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ مجھے پتا ہے چیف جسٹس کو بھی ملک کا خیال ہے۔

کمیٹی کے رکن برجیس طاہر نے کہا کہ پوری کمیٹی آپ کے ساتھ ہے جو فیصلے کریں گے آپ کا ساتھ دیں گے۔

ایک اور رکن نزہت پٹھان نے کہا کہ بیوروکریسی سمجھتی ہے یہ پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ ججز کی لڑائی ہے۔

چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ جو افسران نہیں آئے ان کو وارننگ دیتا ہوں، اگر افسران اگلی میٹنگ میں نہیں آئے تو ان کو وارنٹ گرفتاری جاری کروں گا۔

انہوں نے کہا کہ مجھے ٹیکس ریٹرن، ٹریول ہسٹری، پلاٹس، فیملی ممبرز اور تمام تفصیلات چاہئیں، میں دیکھنا چاہتا ہوں اداروں اور افسران کتنے مخلص ہیں۔

چیئرمین پی اے سی نے تمام اداروں کو تفصیلات فراہم کرنے کیلئے پندرہ دن کی مہلت دے دی۔

پی اے سی نے چیئرمین ایف بی آر سے سپریم کورٹ کے جج مظاہر علی نقوی کے مالی اثاثوں کا ریکارڈ طلب کرلیا۔

اجلاس میں حکام کو ہدایت کی گئی کہ مظاہر علی نقوی کے مالی اثاثوں اور ویلتھ اسٹیٹمنٹ کا ریکارڈ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو فراہم کیا جائے۔

پی اے سی نے وزارت ہاوسنگ اینڈ ورکس سے بھی مظاہر علی نقوی کے گھروں کا ریکارڈ طلب کرلیا جبکہ جج کے نام پر پلاٹوں کا ریکارڈ بھی طلب کرلیا گیا۔

خیال رہے کہ 4 مئی کو قومی اسمبلی نے آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے الزامات کا سامنا کرنے والے جسٹس مظاہر علی نقوی کا کیس پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کو بھجوا دیا تھا جسے 15 روز میں سپریم کورٹ کے جج کی زیر ملکیت جائیدادوں اور ان کی جانب سے ادا کردہ ٹیکس کی تفصیلات پر مشتمل رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ڈپٹی اسپیکر زاہد اکرم درانی نے وزیر اقتصادی امور سردار ایاز صادق کے مطالبے پر معاملہ پارلیمنٹ کی طاقتور کمیٹی کو بھجوا دیا۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے وقفہ سوالات کے دوران یہ معاملہ پوائنٹ آف آرڈر پر اٹھایا تھا جبکہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے معاملے پر حکومت اور عدلیہ کے درمیان جاری کشمکش کے تناظر میں قانون سازوں نے اعلیٰ عدلیہ کے ججز پر حملہ جاری رکھا تھا۔

چنانچہ ایوان میں بات کرتے ہوئے ایاز صادق نے کہا تھا کہ مختلف بار کونسلز نے جسٹس مظاہر علی نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) میں ریفرنس دائر کیے ہیں، اس طرح کے الزامات عدلیہ کی ساکھ کو داغدار کر رہے ہیں۔

اس سے قبل 6 مارچ کو سپریم جوڈیشل کونسل میں عدالت عظمیٰ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف تیسری درخواست دائر کردی گئی تھی۔

میاں داؤد ایڈووکیٹ نے 2 صفحات پر مشتمل درخواست سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کی تھی جس کی نقول سپریم جوڈیشل کونسل کے دیگر 4 اراکین کو بھی ارسال کی گئی تھیں۔

ازہ درخواست میں جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف ریفرنس کی فوری سماعت اور ان سے عدالتی امور واپس لینے کی استدعا کی گئی تھی۔

درخواست گزار میاں داؤد کا کہنا تھا کہ جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر التوا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ رواں ہفتے کی کاز لسٹ سے معلوم ہوا کہ جسٹس مظاہر اکبر نقوی اب بھی مقدمات کی سماعت کر رہے ہیں۔

میاں داؤد نے کہا تھا کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے جسٹس مظاہر اکبر نقوی کو اپنے ساتھ بینچ میں شامل بھی کیا اور الگ سے ایک بینچ کا سربراہ بھی بنایا ہے۔

درخواست گزار کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان کا جسٹس مظاہر نقوی کو بینچز میں شامل کرنا انصاف کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024