• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

9 مئی ’سیاہ باب‘، جو ابدی دشمن نہ کرسکا وہ سیاسی لبادہ اوڑھے گروہ نے کر دکھایا، پاک فوج

شائع May 10, 2023
پاک فوج نے کہا کہ منظم طریقے سے فوجی تنصیبات پر حملہ کرایا گیا—فوٹو: رائٹرز
پاک فوج نے کہا کہ منظم طریقے سے فوجی تنصیبات پر حملہ کرایا گیا—فوٹو: رائٹرز

پاک فوج نے پٌاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد احتجاج کے دوران فوجی املاک کو نشانے بنائے جانے پر ’9 مئی کو سیاہ‘ باب قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ منظم طریقے سے فوجی تنصیبات پر حملے کرائے گئے۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا کہ ’چیئرمین پی ٹی آئی کو نیب اعلامیے کے مطابق کل اسلام آباد ہائی کورٹ سے قانون کے مطابق حراست میں لیا گیا، اس گرفتاری کے فوراً بعد ایک منظم طریقے سے فوج کی املاک اور تنصیبات پر حملے کرائے گئے اور فوج مخالف نعرے بازی کروائی گئی‘۔

آئی ایس پی آر نے بتایا کہ ’9 مئی کا دن ایک سیاہ باب کی طرح یاد رکھا جائے گا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ایک طرف تو یہ شر پسند عناصر عوامی جذبات کو اپنے محدود اور خود غرض مقاصد کی تکمیل کے لیے بھرپور طور پر ابھارتے ہیں اور دوسری طرف لوگوں کی آنکھوں میں دھول ڈالتے ہوئے ملک کے لیے فوج کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتے نہیں تھکتے جو کہ دوغلے پن کی مثال ہے‘۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’جو کام ملک کے ابدی دشمن 75 سال نہ کرسکے وہ اقتدار کی ہوس میں مبتلا ایک سیاسی لبادہ اوڑھے ہوئے گروہ نے کر دکھایا ہے‘۔

فوج نے بتایا کہ ’فوج نے انتہائی تحمل، بردباری اور برداشت کا مظاہرہ کیا اور اپنی ساکھ کی بھی پرواہ نہ کرتے ہوئے ملک کے وسیع تر مفاد میں انتہائی صبر اور برداشت سے کام لیا‘۔

بیان میں بتایا گیا کہ ’مذموم منصوبہ بندی کےتحت پیدا کی گئی اس صورت حال سے یہ گھناؤنی کوشش کی گئی کہ فوج اپنا فوری ردعمل دے جس کو اپنے مذموم سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکے‘-

بیان میں مزید بتایا گیا کہ ’آرمی کے میچور ردعمل نے اس سازش کو ناکام بنا دیا، ہمیں اچھی طرح علم ہے کہ اس کے پیچھے پارٹی کے چند شرپسند قیادت کے احکامات، ہدایات اور مکمل پیشی منصوبہ بندی تھی اور ہے‘۔

آئی ایس پی آر نے بتایا کہ ’جو سہولت کار، منصوبہ ساز اور سیاسی بلوائی ان کارروائیوں میں ملوث ہیں ان کی شناخت کر لی گئی ہے اور ان کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی کی جائے گی اور یہ تمام شر پسند عناصر اب نتائج کے خود ذمہ دار ہوں گے‘۔

فوج نے بتایا کہ ’فوج بشمول تمام قانون نافذ کرنے والے ادارے، فوجی اور ریاستی تنصیبات اور املاک پر کسی بھی مزید حملے کی صورت میں شدید ردعمل دیا جائے گا جس کی مکمل ذمہ داری اسی ٹولے پر ہوگی جو پاکستان کو خانہ جنگی میں دھکیلنا چاہتا ہے‘۔

بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ ’کسی کو بھی عوام کو اکسانے اور قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی‘۔

القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کیس میں عمران خان کی گرفتاری

سابق وزیراعظم عمران خان 9 مئی 2023 کو متعدد مقدمات میں ضمانت کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچے تھے جہاں انہیں نیب کی جانب سے رینجرز نے القادر ٹرسٹ کیس میں حراست میں لے لیا تھا۔

عدالتی احاطے سے گرفتاری کا نوٹس لیتے ہوئے اسلام اْباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے تھے کہ اگر پی ٹی آئی سربراہ کو غیر قانونی طور پر گرفتار کیا گیا تو انہیں رہا کرنا پڑے گا، تاہم چند گھنٹے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی احاطہ عدالت سے گرفتاری کو قانون کے مطابق قرار دےدیا تھا۔

وارنٹ گرفتاری کے مطابق نیب نے عمران خان کو نیب آرڈیننس 1999 کے سکیشن 9 اے کے تحت گرفتار کیا، نیب نے 34 اے، 18 ای، 24 اے کے تحت کارروائی عمل میں لاتے ہوئے عمران خان کو گرفتار کیا۔

بعد ازاں اسلام آباد کی احتساب عدالت نے عمران خان کو 8 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیا جبکہ نیب نے 14 روزہ ریمانڈ کی درخواست کی تھی۔

نیب کا مؤقف

نیب اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ عمران خان پر کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز میں ملوث ہونےکا الزام ہے۔

نیب راولپنڈی سے جاری بیان میں بتایا گیا تھا کہ یہ مقدمہ القادر یونیورسٹی کے لیے زمین کے غیرقانونی حصول اور تعمیرات سے متعلق ہے، جس میں نیشنل کرائم ایجنسی برطانیہ کے ذریعے بنیادی رقم 190 ملین پاؤنڈز کی وصولی میں غیرقانونی فائدہ شامل ہے۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ نیب راولپنڈی کی جانب سے کی گئی انکوائری اور تفتیش کے قانونی طریقہ کار کو پورا کرنے کے بعد عمران خان کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے، انکوائری یا تفتیش کے عمل کے دوران سابق وزیراعظم اور ان کی اہلیہ کو متعدد متعدد مرتبہ پیشی کے لیے نوٹس جاری کیے گئے کیونکہ دونوں القادر ٹرسٹ کے ٹرسٹیز تھے۔

بیان میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم یا ان کی اہلیہ کی طرف سے کسی بھی کال اپ نوٹس کا جواب نہیں دیا گیا جبکہ سابق معاون خصوصی برائے وزیراعظم شہزاد اکبر مذکورہ کیس میں ملوث کلیدی کردار ہیں۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ وہ اور سابق وزیراعظم نے تصفیہ معاہدے سے متعلق حقائق/دستاویزات چھپا کر اپنی کابینہ کو گمراہ کیا، 190 ملین برطانوی پاؤنڈز رقم تصفیہ/معاہدے کے تحت موصول ہوئی تھی اور قومی خزانے میں جمع ہونی تھی، اس کے برعکس رقم بحریہ ٹاؤن کراچی کیس میں 460 ارب روپے کی ادائیگی کے معاملے میں ایڈجسٹ کیا گیا۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ سابق وزیراعظم کے سابق معاون خصوصی مفرور شہزاد اکبر کے خلاف ریڈ نوٹس جاری کرنے کی کارروائی پہلے ہی شروع کی جا چکی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024