بی جے پی کو اہم ریاست کرناٹک میں کانگریس کے ہاتھوں شکست
بھارت کی اپوزیش جماعت کانگریس نے ملک کی ریاست کرناٹک میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو واضح شکست دیتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی کی اپنی ہندو قوم پرستی کو جنوبی صوبوں میں پھیلانے کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق بی جے پی نے 2019 میں کرناٹک میں کانگریس کی کمزور مخلوط حکومت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا، تاہم کانگریس نے اس بار زبردست کامیابی حاصل کی اور 224 رکنی ریاستی اسمبلی میں 136 سیٹیں جیت کر نصف سے بھی زائد اپنے نام کر لیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے کئی دنوں میں کئی ریلیاں کیں اور ہندو ووٹروں سے مذہب کی بنیاد پر ووٹ کی اپیل کرتے ہوئے مہم کا اختتام کیا، لیکن اس سب کے باوجود ناکامی نے بی جے پی کی شکست کی اہمیت کو بڑھا دیا۔
بھارت کو متحد کرنے کے لیے کیے جا رہے حالیہ میراتھن کے لیے جنوبی ریاستوں تامل ناڈو، کیرالہ اور کرناٹک میں کئی دن گزارنے والے کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے کہا کہ نفرت کا بازار بند ہو گیا ہے، محبت کی دکانیں دوبارہ کھل گئی ہیں۔
تاہم کانگریس کی پریشانیاں پوری طرح ختم نہیں ہوئی ہیں، اسے وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لیے دو مختلف نظریاتی طاقتوں میں سے کسی ایک کا فیصلہ کرنا ہے، سابق وزیر اعلیٰ سدارامیا کا تعلق سماجی انصاف سے ہے جبکہ ڈی کے شیوکمار ایک امیر کسان ہیں، رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ دونوں کو وزیر اعلیٰ کے طور پر جگہ دی جا سکتی ہے اور پانچ سالہ دور کو برابر حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
مقامی اعلیٰ عہدیداروں کے مسئلے نے بھی بی جے پی کو پریشان کر دیا اور اسے وزیر اعظم پر مہم میں توجہ مرکوز کرنے کے لیے ایک بااثر سابق وزیر اعلیٰ کو ہٹانا پڑا، کرناٹک میں نریندر مودی کی کرشماتی طاقت کی ناکامی کو بی ایس یدی یورپا کے لیے اچھی خبر تصور کیا جا رہا ہے جو مئی 2024 میں نریندر مودی کی انتخابی مہم کے لیے اور بھی اہم ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ کرناٹک کے نتائج کا فیصلہ ووٹوں میں معمولی تبدیلی سے ہوا اور اسی لیے بھارت کی اپوزیشن جماعتوں کو بھی پریشان ہونا چاہیے۔
دو دیگر نتائج کی وجہ سے بھی اپوزیشن جماعتوں کو اپنے مستقبل پر غور کرنا چاہیے، جیسا کہ عام آدمی پارٹی نے جالندھر سے لوک سبھا کی ایک ہی سیٹ جیتی، کانگریس پارٹی کو بڑے فرق سے شکست دی اور واضح طور پر مسلم مخالف وزیر اعلیٰ کی قیادت میں بی جے پی نے اتر پردیش میں بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔
ان نتائج کو سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو کے لیے پریشانی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے لیکن اچھی خبر یہ ہے کہ حال ہی میں ضمانت پر رہا ہوئے لالو یادو نے اپوزیشن اتحاد کے لیے تندہی سے کام شروع کر دیا ہے۔
جیسے ہی کرناٹک کے نتائج سامنے آئے، لالو وہاں عبادت کے لیے ’ہائی کورٹ مزار‘ کے نام سے مشہور مسلم مزار کی طرف روانہ ہوئے۔