پی ڈی ایم کی ’سازش‘ ملک کی تقسیم کا سبب بن سکتی ہے، عمران خان
سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان نے پاک فوج کو ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے خلاف کھڑا کرنے اور پاکستانیوں میں نفرت پھیلانے کی سازش کا الزام حکومت پر عائد کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ یہ کوشش ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سابق وزیر اعظم نے گزشتہ روز زمان پارک میں واقع رہائش گاہ سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کے دوران کہا کہ پی ڈی ایم قیادت اور لندن میں مفرور نواز شریف کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آئینِ پاکستان کی بے حرمتی ہو رہی ہے، ریاستی ادارے تباہ ہوگئے یا پاک فوج کی بدنامی ہو رہی ہے، وہ صرف لوٹی ہوئی دولت کو بچانے کے چکر میں ہیں۔
عمران خان نے دعویٰ کیا کہ میں ملک کی تباہی کا ڈراؤنا خواب دیکھ رہا ہوں ، سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کا واحد حل انتخابات ہیں، میں بااختیار قوتوں سے اپیل کرتا ہوں کہ انتخابات ہونے دیں اور ملک کو بچائیں۔
انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے پورے سیاسی کیریئر کے دوران عالمی میڈیا پر بھی پاکستانی فوج کا دفاع کیا، میں فوج پر ایسے ہی تنقید کرتا ہوں جیسے اپنے بچوں پر تنقید کرتا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے بارہا کہا ہے کہ میں ریاستی اداروں کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا، میں نے تو اس وقت بھی مداخلت نہیں کی تھی جب مجھے یہ اطلاعات ملیں کہ سابق آرمی چیف میرے خلاف سازش میں مصروف ہیں، کچھ سیاستدان موجودہ آرمی چیف کو کہہ رہے ہیں کہ عمران خان اقتدار میں آنے کی صورت میں انہیں ڈی نوٹیفائی کر دے گا۔
حکومت پنجاب کی جانب سے زمان پارک میں واقع رہائش گاہ پر تقریباً 40 دہشت گرد چھپے ہونے کے دعوے پر ردعمل دیتے ہوئے پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ 40 دہشت گرد ہیں تو میری بھی جان کو خطرہ ہے، آپ سے گزارش ہے کہ مہربانی کر کے یہاں آئیں اور سرچ وارنٹ لے کر آئیں تاکہ ہم بھی دیکھیں دہشت گرد کون ہے، مگر اس کو ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کا بہانہ نہ بنائیں۔
نگران پنجاب حکومت پر صوبے میں کور کمانڈر ہاؤس اور دیگر ریاستی عمارتوں کا دفاع نہ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہیں شواہد ملے ہیں کہ کچھ نامعلوم مسلح افراد پی ٹی آئی کے جلسے میں شامل ہوئے تھے جو سرکاری املاک نذرآتش کرنے میں ملوث تھے۔
پی ٹی آئی کے 25 کارکنان کی ہلاکت، 700 کے قریب کارکنان کے گولیوں سے زخمی ہونے اور ساڑھے 7 ہزار سے زائد کارکنان کو گرفتار کیے جانے کا ذکر کرتے ہوئے عمران خان نے خبردار کیا کہ اس سے ملک کے مفادات کو نقصان پہنچے گا۔
جوڈیشل کمیشن
انہوں نے اعلان کیا کہ دستیاب شواہد کے ساتھ پی ٹی آئی ان عناصر کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کر رہی ہے جن کی وجہ سے جناح ہاؤس اور دیگر سرکاری عمارتوں پر آتشزدگی کا واقعہ پیش آیا۔
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ آئی جی پنجاب کو پہلے اس بات کی تحقیقات کرنی چاہیے کہ لبرٹی راؤنڈ اباؤٹ سے لے کر جناح ہاؤس تک مارچ کرنے والے مظاہرین کو روکنے کے لیے کوئی موجود کیوں نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ یہ ہنگامہ آرائی ایک سوچی سمجھی سازش تھی جو پی ڈی ایم حکومت اور نگراں حکومت پنجاب نے بنائی، واقعے کے فوراً بعد حکومت نے پی ٹی آئی کو دہشت گرد جماعت قرار دینے کی راہ ہموار کرنے کے لیے جج، جیوری اور جلاد کا کردار ادا کیا۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ وقت ہے کہ بااختیار قوتیں سمجھداری سے دوبارہ غور کریں ورنہ ملک کو مشرقی پاکستان جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
عمران خان نے کہا کہ ایک حالیہ سروے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان کی 70 فیصد آبادی پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑی ہے اور باقی 30 فیصد لوگ ان تمام جماعتوں کے ساتھ ہیں جو پی ڈی ایم کا حصہ ہیں۔
گرفتاری سے قبل آخری ٹوئٹ
قبل ازیں ٹوئٹر پر جاری بیان میں عمران خان نے کہا کہ ’میری اگلی گرفتاری سے قبل شاید یہ میری آخری ٹوئٹ ہو کیونکہ پولیس میری رہائش گاہ کا محاصرہ کر چکی ہے‘۔
انہوں نے سلسلہ وار ٹوئٹس میں پی ٹی آئی کی سینئر قیادت اور کارکنوں کی غیر قانونی گرفتاری اور اغوا کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر شیریں مزاری، ان کی بیٹی، شہریار آفریدی کی اہلیہ اور پارٹی کی دیگر گرفتار خواتین کے ساتھ مرد پولیس افسران کی جانب سے کیا گیا ناروا سلوک قابل مذمت ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ پارٹی کی خواتین کارکنوں اور حامیوں کو فوری طور پر رہا کیا جائے، میں یہ مسئلہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے سامنے بھی اٹھا رہا ہوں۔
عمران خان کی رہائش گاہ تک میڈیا کو رسائی
ویڈیو لنک خطاب کے بعد عمران خان نے الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کے نمائندوں کو اپنی رہائش گاہ تک رسائی کی اجازت دی تاکہ وہ خود دیکھ لیں کہ اندر کوئی دہشت گرد موجود نہیں ہیں۔
پی ٹی آئی کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کی گئی ٹوئٹ میں کہا گیا کہ نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی بدنیتی کی بنیاد پر زمان پارک پر 14 مارچ کے بدترین آپریشن کو دہرانا چاہتے ہیں، یہ صاف خدشہ ہے کہ پولیس روایتی طور پر ایسے موقع پر لوگوں کو ساتھ لاتی ہے اور ان کی گرفتاری وہاں سے ڈال کر میڈیا کو گمراہ کیا جاتا ہے۔
بعد ازاں عمران خان کی رہائش گاہ کا دورہ کرنے والے میڈیا نمائندگان نے بتایا کہ گھر کے اندر صرف گھریلو ملازم اور کچھ پولیس والے موجود تھے۔