اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر ستمبر تک 2 ارب ڈالر سے کم ہوجائیں گے، مفتاح اسمٰعیل
سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے کہا ہے کہ پاکستان کی اقتصادی صورتحال آنے والے مہینوں میں ’بہت مشکل‘ ہو جائے گی، پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر ستمبر کے آخر تک کم ہو کر 2 ارب ڈالر کی خطرناک سطح تک آجائیں گے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جرمن سفارتخانے میں کاروباری افراد سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے کہا کہ ملک میں جاری معاشی بحران ’پرانے کساد بازار‘ جیسا نہیں ہے۔
عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ 7 ارب ڈالر کا قرض پروگرام مہینوں سے معطل ہے، مرکزی بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر 4 ارب 40 کروڑ ڈالر رہ گئے ہیں۔
مفتاح اسمٰعیل کے مطابق پاکستان کو 3 ارب 70 کروڑ ڈالر قرض ادائیگی اور 40 کروڑ ڈالر کا شرح سود 2 مہینے کے اندر ادا کرنا ہے۔
دوسرے الفاظ میں، بیرونی قرض کی ادائیگیوں کے لیے 4 ارب 10 کروڑ ڈالرز کا انخلا ہو گا جبکہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 4 ارب 40 کروڑ ڈالر ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 4 ارب 10 کروڑ ڈالر میں سے ایک ارب ڈالر چین کے مرکزی بینک کی جانب سے محفوظ ڈپازٹس دیے گئے ہیں، جس میں توسیع کی توقع ہے، اس طرح کُل 3 ارب 10 کروڑ ڈالر کا انخلا ہوگا، اسلام آباد نے 2 چینی بینکوں سے ایک ارب 50 کروڑ ڈالر قرض لے رکھا ہے، اس میں بھی توسیع کا امکان ہے لیکن اس عمل میں وقت لگے گا۔
مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ چین کی جانب سے قرض میں توسیع کا مختلف طریقہ کار ہے، آپ انہیں چیک بھیجتے ہیں اور وہ ایک مہینے تک رقم اپنے پاس رکھتے ہیں، اس کے بعد وہ قرض میں توسیع کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ممکنہ طور پر یکم اکتوبر تک ہمارے پاس 2 ارب ڈالر سے کم ہوں گے، ہم اس کے بعد کتنے عرصے گزارا کرسکتے ہیں، صرف اللہ جانتا ہے، عارضی طور پر پاکستان کے لیے صورتحال بہت مشکل ہو جائے گی۔
رہنما مسلم لیگ (ن) نے بتایا کہ ملکی قرضے بھی خاص طور پر غیر معمولی بُلند شرح سود کی وجہ سے کنٹرول سے باہر ہوتے جارہے ہیں، انہوں نے صوبوں پر تنقید کی کہ وہ ریئل اسٹیٹ، زراعت اور خدمات پر ٹیکس لگا کر آمدنی بڑھانے میں کم دلچپسی دکھاتے ہیں۔
جس کے نتیجے میں صوبے 75 کھرب کے سالانہ وفاقی ٹیکس محصولات میں سے 45 کھرب روپے کھا جاتے ہیں، حتیٰ کہ اگر وفاقی حکومت نان ٹیکس ریونیو کی مد میں 15 کھرب اکٹھا کر لیتی ہے پھر بھی اسلام آباد کے پاس صرف 45 کھرب روپے بچتے ہیں، یہ رقم مالیاتی کھاتے کو توازن میں رکھنے کے لیے ناکافی ہے کیونکہ قرض کی سالانہ ادائیگی 60 کھرب تک پہنچ چکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ کو سود ادا کرنے کے لیے قرض لینا پڑے تو آپ قرض کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔
مفتاح اسمٰعیل نے اپنے مطالبے کا اعادہ کیا کہ کو ملک بھر کے ہر ڈویژن کو صوبہ بنانا چاہیے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ مالیاتی اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کیا جائے، امریکی ماہر اقتصادیات چارلس ٹائی باؤٹ کے اس دعوے کا حوالہ دیتے ہوئے کہ لوگ ان شہروں اور اضلاع سے ہٹ کر ’ ان اضلاع میں جاتے ہیں’ جہاں ٹیکس کی شرح مناسب اور بہتر سہولیات ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ تین درجن صوبوں کے درمیان مقابلہ گورننس میں بڑی بہتری لائے گا۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جرمن کونسل جنرل ڈاکٹر رُودی گرلوٹز نے کہا کہ معاشی صورتحال سے لڑنے کے لیے پاکستان میں سیاسی استحکام کی ضرورت ہے۔