• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل چوتھے ہفتے کمی

شائع May 26, 2023
موجودہ ذخائر بمشکل صرف 4 ہفتوں کی درآمدات کی ضروریات پوری کرنے کے قابل ہیں—فائل فوٹو: رائٹرز
موجودہ ذخائر بمشکل صرف 4 ہفتوں کی درآمدات کی ضروریات پوری کرنے کے قابل ہیں—فائل فوٹو: رائٹرز

اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر مسلسل چوتھے ہفتے تنزلی کے بعد 4 ارب 20 کروڑ ڈالر رہ گئے ہیں، جس سے بمشکل ایک مہینے کی کنٹرولڈ درآمدات کی جاسکتی ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق 19 مئی کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران زرمبادلہ کے ذخائر 11 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کم ہو گئے جبکہ کمرشل بینکوں کے ذخائر میں 8 کروڑ 75 لاکھ ڈالر گر کر 5 ارب 54 کروڑ ڈالر ریکارڈ کیے گئے۔

ملک کے مجموعی ذخائر 9 ارب 73 کروڑ ڈالر کی سطح پر آ گئے، جن میں کُل 20 کروڑ 60 لاکھ ڈالر تنزلی ہوئی۔

کرنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملکی معیشت کے لیے ایک ایک ڈالر اہم ہے، جس سے شرح تبادلہ پر نمایاں اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

زرمبادلہ میں حالیہ کمی ایسے وقت میں ہوئی ہے جب اسٹیٹ بینک نے بینکوں کو لیٹر آف کریڈٹ (ایل سیز) کھولنے کے لیے سخت شرائط لگا کر درآمدات پر سخت کنٹرول رکھا ہوا ہے۔

مالیاتی ماہرین کہتے ہیں کہ سخت کنٹرول کے 2 نتائج ظاہر ہوتے ہیں، درآمدات کرنے کے لیے درآمدکنندگان ڈالر غیرقانونی منڈیوں سے خریدنا شروع کر دیتے ہیں اور دوسری طرف بڑے پیمانے پر اشیا کی اسمگلنگ بھی شروع ہو جاتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستانی منڈیاں اسمگل شدہ ایرانی اور چینی مصنوعات سے بھری پڑی ہیں جبکہ بنگلہ دیش سے ٹیکسٹائل مصنوعات بھی آرہی ہیں۔

اشیا کی اسمگلنگ اور غیر قانونی منڈیوں سے ڈالر خریدنے کی وجہ سے انٹربینک اور اوپن مارکیٹ کے درمیان ڈالر کا فرق زیادہ ہو گیا ہے۔

یہ فرق 22 روپے تک پہنچ چکا ہے، جس کی وجہ سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے اس بڑے فرق سے فائدہ اٹھانے کے سبب قانونی ذرائع کا استعمال کرنا روک دیا ہے، اپریل میں دوسرے ملک میں مقیم پاکستانیوں نے 29 فیصد کم ترسیلات زر بھیجیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈالرز کی آمد قانونی سے غیر قانونی ذرائع کی طرف منتقل ہوئی ہے۔

اگر یہ فرق برقرار رہتا ہے تو اسٹیٹ بینک آف پاکستان مجبور ہو جائے گا کہ وہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کرے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024