بچوں کا جنسی استحصال: برطانوی ماہرین نے سیکریٹری داخلہ کے ’باعث تقسیم دعووں‘ کو مسترد کردیا
برطانیہ بھر کی جامعات کے محققین اور ماہرینِ تعلیم نے وزیراعظم رشی سوناک اور سیکریٹری داخلہ سوئیلا براورمین کو مشترکہ خط لکھ کر بچوں کے جنسی استحصال کے بارے میں باعث تقسیم بیانات دینے سے گریز کرنے پر زور دیا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق محققین اور پالیسی سازوں کی طرف سے مشترکہ خط گزشتہ ماہ سیکریٹری داخلہ کی طرف سے دیے گئے بیان کے جواب میں لکھا گیا ہے جہاں انہوں نے بار بار پاکستانی نژاد برطانوی مردوں کے رویوں پر بات کی جو برطانوی اقدار سے بالکل متصادم ثقافتی اقدار رکھتے ہیں۔
اسکائی نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں سوئیلا براورمین نے کہا تھا کہ پاکستانی نژاد برطانوی مرد، خواتین کو بری نظر سے دیکھتے ہیں اور ایک فرسودہ اور واضح طور پر گھناؤنا نقطہ نظر رکھتے ہیں۔
سیکریٹری داخلہ نے روتھرہام سے آنے والی جنسی استحصال کی رپورٹس کا حوالہ دیا جس میں پانچ پاکستانی نژاد برطانوی مردوں کو نابالغ بچیوں سے شادی کرنے، ریپ کرنے اور ان کا استحصال کرنے کے جرم میں سزا دی گئی تھی۔
جامعات کے حکام کی طرف سے لکھے گئے خط میں ان فرسودہ چیزوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا گیا کہ ایسا کرنے سے ثبوت پر مبنی، منصفانہ اور جامع پالیسی سازی کو یقینی بنانے کی کوششوں کو نقصان پہنچتا ہے۔
مشترکہ خط میں لکھا گیا ہے کہ بچوں کو تحفظ دینے، نقصان دینے والے فرسودہ اور دقیانوسی تصورات کو چیلنج کرنے کے لیے ہدف پر مبنی کارروائی لازمی ہے۔
مشترکہ خط میں مزید لکھا گیا ہے کہ اس چیز کو ختم کرنے کے لیے ہم فوری طور پر تمام سیاستدانوں پر زور دیتے ہیں کہ بچوں کے جنسی استحصال کے بارے میں جزوی، غلط یا تفریق پر مبنی دعووں سے گریز کریں۔
خط میں لکھا گیا ہے کہ بچوں کے جنسی استحصال کی متنوع فطرت کو غلط پیش کرنا خطرناک ہے۔
مشترکہ خط میں مزید لکھا گیا ہے کہ وہ پالیسیاں جو کسی بھی دوسرے کے مقابلے میں ایک ’قسم‘ کے جنسی استحصال کو زیادہ گھناؤنے اور توجہ کے لائق قرار دینے کی بنیاد سے شروع ہوتی ہیں وہ غیر مؤثر اور غیر اخلاقی ہیں۔
مزید کہا گیا ہے کہ کسی ایک کمیونٹی کی بنیاد پر جنسی استحصال کے مسائل کو دیکھنا وسیع ثبوت کے خلاف ثابت ہوتا ہے۔