ارشد شریف کی والدہ کی تحقیقات میں چیئرمین پی ٹی آئی، دیگر افراد کو شامل کرنے کی درخواست
مقتول صحافی ارشد شریف کی والدہ نے سپریم کورٹ سے درخواست کی ہے کہ وہ خصوصی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کو تحقیقات میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اور دیگر چار افراد کو شامل کرنے ہدایت کرے۔
خصوصی تحقیقاتی ٹیم گزشتہ سال اکتوبر میں ہوئے ان کے بیٹے کے قتل کی تحقیقات کر رہی ہے۔
درخواست میں ارشد شریف کی والدہ نے پانچ افراد کا نام لیا ہے جنہوں نے صحافی کے قتل کی سازش اور اس کو انجام دینے میں ملوث افراد کے بارے میں دعوے کیے تھے اور زور دے کر کہا کہ ’اصل مجرموں کے خلاف شواہد اکٹھے کرنے کے لیے ان افراد کو تحقیقات میں شامل کرنا ضروری ہے‘۔
انہوں نے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان، سابق وفاقی وزرا فیصل واوڈا اور مراد سعید؛ پی ٹی آئی کے حمایتی صحافی عمران ریاض خان جن کے ٹھکانے کا فی الحال کچھ پتا نہیں ہے، اور اے آر وائی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر سلمان اقبال کا نام لیا پر جن کو تحقیقات میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔
درخواست میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی کہ والدہ کو فیکٹ فائنڈنگ انکوائری رپورٹ کے ساتھ ساتھ جے آئی ٹی کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹس تک رسائی نہیں دی گئی اور انہیں ’تفتیش میں شامل افراد کے بارے میں اندھیرے میں رکھا گیا‘۔
والدہ ارشد شریف نے کہا کہ ’منصفانہ تحقیقات کو انجام تک پہنچانے کے لیے یہ جے آئی ٹی کا فرض ہے کہ وہ ان افراد کے ساتھ ساتھ اس سلسلے میں دیگر دعووں کی جانچ کرے‘۔
6 جون کو ایک علیحدہ درخواست میں ان کے وکیل ایڈووکیٹ راجا عبدالغفور نے سپریم کورٹ سے یہ بھی استدعا کی تھی کہ انہیں فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کی ایک کاپی فراہم کی جائے یا ان کے ساتھی وکیل ایڈووکیٹ شوکت عزیز صدیقی کو اس کے نوٹس کے لیے رسائی فراہم کی جائے۔
مذکورہ درخواست میں کہا گیا کہ گزشتہ سماعت کے دوران بھی یہی درخواست کی گئی تھی لیکن اٹارنی جنرل کی ’عدم رضامندی‘ کی وجہ سے اس سلسلے میں کوئی حکم جاری نہیں کیا گیا۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ ’اس عدالت کے سامنے پیش کیا گیا کوئی بھی مواد خفیہ نہیں رکھا جا سکتا ہے اگر تحقیقاتی ایجنسی کی جانب سے کوئی غفلت برتی گئی ہو۔
والدہ ارشد شریف نے کہا کہ ’ان رپورٹس کی عدم فراہمی درخواست گزار کے زخم پر نمک ڈالنے کے مترادف ہے‘۔
گزشتہ تحقیقات کی پیش رفت
گزشتہ سال دسمبر میں، انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے افسران پر مشتمل دو رکنی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ ارشد شریف کا قتل ’منصوبہ بندی کے ساتھ ٹارگٹڈ قتل‘ تھا جس میں مبینہ طور پر ’بین الاقوامی کردار‘ شامل تھے۔
جنوری کی ایک سماعت میں عدالت عظمیٰ نے تفتیش کاروں سے کہا تھا کہ وہ وزارت خارجہ سے قتل کی تحقیقات میں اقوام متحدہ کو شامل کرنے کے امکان پر بات کریں۔
بینچ نے یہ بھی کہا تھا کہ عدالت تحقیقات میں مداخلت نہیں کرے گی، عدالت جے آئی ٹی کو تحقیقات کے لیے آزادی دے رہی ہے اور معاملے کی شفاف تحقیقات ہونی چاہیے کیونکہ عدالت شفاف تحقیقات کے لیے بہت سنجیدہ ہے۔
فروری میں سپریم کورٹ کو بتایا گیا تھا کہ کینیا کے حکام تحقیقاتی ٹیم کو ’مکمل رسائی‘ نہیں دے رہے ہیں، جو تحقیقات کرنے کے لیے کینیا اور متحدہ عرب امارات گئی تھی، جبکہ متحدہ عرب امارات کے حکام نے بھی ٹیم کو وہاں تحقیقات کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔
اس پر جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو خبردار کیا تھا کہ وہ ’عدالت کے ساتھ نہ کھیلیں‘ جج نے کہا تھا کہ ’یہ (تحقیقات کا) پہلا مرحلہ تھا جو مکمل نہیں ہو سکا، کیا جے آئی ٹی کینیا اور یو اے ای میں تفریح کے لیے گئی تھی؟
8 مارچ کو خصوصی جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ کے سامنے پیش رفت رپورٹ پیش کی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ اس قتل میں ’کینیا، دبئی اور پاکستان کے بین الاقوامی کرداروں‘ کو خارج نہیں کیا جا سکتا۔
مارچ کی ایک اور سماعت میں چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ اہم سوال یہ ہے کہ صحافی ملک کیوں چھوڑ گئے اور اس پیش رفت سے پہلے کیا ہوا اس کی وضاحت ہونی چاہیے۔
گزشتہ ماہ عدالت عظمیٰ نے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی ابتدائی رپورٹ میڈیا کو جاری کرنے پر بھی برہمی کا اظہار کیا تھا۔
ارشد شریف کا قتل
ارشد شریف گزشتہ سال اگست میں اپنے خلاف کئی مقدمات درج ہونے کے بعد پاکستان چھوڑ کر چلے گئے تھے۔
بتایا گیا کہ وہ ابتدائی طور پر متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں مقیم تھے جس کے بعد وہ کینیا گئے جہاں انہیں گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔
ابتدائی طور پر کینیا کے میڈیا نے مقامی پولیس کے حوالے سے کہا تھا کہ ارشد شریف کو پولیس نے ’غلط شناخت‘ کے معاملے میں گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
تاہم بعد میں کینیا کے میڈیا کی رپورٹس نے قتل کے ارد گرد کے واقعات کو دوبارہ ترتیب دیا، جس میں بتایا گیا کہ شریف کے قتل کے وقت ان کی گاڑی میں موجود ایک شخص نے پیرا ملٹری جنرل سروس یونٹ کے افسران پر گولی چلائی تھی۔
اس کے بعد حکومت پاکستان نے ایک ٹیم تشکیل دی تھی جس نے اس قتل کی تحقیقات کے لیے کینیا کا سفر کیا۔