• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am

میئر کراچی کا انتخاب: ’کراچی کا حال ویسا ہی رہے گا جیسا اِس وقت ہے‘

جانیے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار میئر کراچی کے انتخاب کے حوالے سے کیا رائے رکھتے ہیں؟

کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے تقریباً 5 ماہ بعد آج میئر کراچی کے انتخاب کا مرحلہ بھی مکمل ہوا۔ اس انتخاب میں سٹی کونسل میں سب سے زیادہ نشستیں رکھنے والی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی جانب سے میئر کے امیدوار مرتضٰی وہاب تھے جبکہ سٹی کونسل میں دوسری بڑی جماعت، جماعت اسلامی کی جانب سے میئر کے امیدوار حافظ نعیم الرحمٰن تھے۔

نمبرز گیم کو دیکھا جائے تو اس وقت مخصوص نشستوں کو ملا کر سٹی کونسل میں پیپلز پارٹی کے 155 اور جماعت اسلامی کے ارکان کی تعداد 130 ہے جبکہ پی ٹی آئی 62، مسلم لیگ (ن) 14، جے یو آئی 4 اور تحریک لبیک کی ایک نشست ہے۔

میئر کے انتخاب کے لیے پیپلز پارٹی کو مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) جبکہ جماعت اسلامی کو پاکستان تحریک انصاف کی حمایت حاصل تھی۔

اس طرح پیپلز پارٹی اور ان کے اتحادی ارکان کی تعداد 173 جبکہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے مشترکہ اراکین 192 تھے۔

تاہم ووٹنگ سے قبل ایک ڈرامائی صورتحال پیدا ہوئی اور پاکستان تحریک انصاف کے تقریباً 30 اراکین نے ایک فارورڈ گروپ بنانے کا اعلان کرتے ہوئے اپنا الگ پارلیمانی لیڈر نامزد کیا اور ووٹنگ کے عمل میں غیر حاضر رہے۔

نتیجے کے طور پر جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی اتحاد کی اکثریت ختم ہوگئی پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار مرتضٰی وہاب غیر سرکاری نتائج کے مطابق 173 ووٹوں کے ساتھ کراچی کے میئر منتخب ہوگئے۔

  مرتضٰی وہاب 173 ووٹوں کے کراچی کی میئر منتخب ہوگئے— تصویر: ڈان نیوز
مرتضٰی وہاب 173 ووٹوں کے کراچی کی میئر منتخب ہوگئے— تصویر: ڈان نیوز

اس حوالے سے ڈان نیوز نے سینیئر صحافیوں اور تجزیہ کاروں سے رابطہ کیا اور ان سے یہ جاننے کی کوشش کی موجودہ صورتحال میں میئر کراچی کے لیے ہونے والے اس انتخاب کی ساکھ کیا رہ جاتی ہے اور کیا اس انتخاب کے نتیجے کی بنیاد پر سٹی کونسل کو آئندہ 4 سال تک چلایا جاسکے گا؟ ہم نے ان سے یہ بھی جاننے کی کوشش کی کہ کیا اب بھی سیاسی جماعتوں کو اپنی اکثریت ثابت کرنے کی کوشش کرنی چاہیے یا ان نتائج کو تسلیم کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے؟


'میئر صرف ایک شوپیس کی طرح ہے'

فہیم زمان

اس حوالے سے ڈان سے بات کرتے ہوئے سابق ایڈمنسٹریٹر کراچی فہیم زمان کا کہنا تھا کہ ’یونین کونسلز کے انتخابات 15 جنوری کو ہوئے اور 5 ماہ بعد بلآخر میئر کے انتخابات کا انعقاد ہوا۔ یہ ہمارے سیاسی عمل پر سوالیہ نشان ہے کہ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے مقامی حکومت کے انتخابات میں اس حد تک تاخیر کی۔

’میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخابات کو آپ ملک کے دیگر سیاسی معاملات سے الگ نہیں کرسکتے۔ ایک چیز واضح ہے کہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں انتخابات کے لیے پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ کی پسندیدہ جماعت ہے جبکہ جس طرح پی ٹی آئی کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا، اس تناظر میں پی ٹی آئی ناپسندیدہ ترین جماعت ہے۔

  میئر کراچی کے لیے ہونے والی ووٹنگ کا منظر— تصویر: ڈان نیوز
میئر کراچی کے لیے ہونے والی ووٹنگ کا منظر— تصویر: ڈان نیوز

’اس تناظر میں دیکھا جائے تو آج پی ٹی آئی کے 30 کے قریب اراکین کا جماعت اسلامی کو ووٹ نہ ڈالنا کوئی حیران کُن بات نہیں ہے۔ اس سب کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک سیاسی عمل ہے اور جماعت اسلامی کو مرتضیٰ وہاب کو مبارک باد دینی چاہیے۔ ساتھ ہی یہ امید بھی کرنی چاہیے کہ سیاسی عمل پوری طرح آگے بڑھے گا اور عدالتوں میں یہ معاملہ نہیں گھسیٹا جائے گا۔

’جہاں تک پی ٹی آئی اراکین کے ایوان میں نہ آنے اور ووٹ نہ دینے کا تعلق ہے تو ووٹ نہ ڈالنے پر پارٹی سے انحراف کے معاملے پر سندھ کا بلدیاتی قانون خاموش ہے لیکن پاکستان میں سپریم کورٹ نے یہ طے کردیا ہے کہ پارٹی اراکین پابند ہیں کہ وہ اپنی پارٹی کے احکامات کے مطابق ہی ووٹ ڈالیں گے۔ اس کے باوجود پی ٹی آئی کے 30 اراکین نے جماعت اسلامی کو ووٹ نہیں ڈالا، چاہے وہ دباؤ میں تھے یا نہیں لیکن یہ ہمارے جمہوری عمل کے لیے خوش آئند بات نہیں ہے۔ نامعلوم نمبروں سے دھمکا کر لوگوں کی وفاداریاں تبدیل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، سیاسی وفاداریاں ایسے تبدیل نہیں ہوتیں۔

’اگر کوئی یہ کہے کہ یہ بہت اچھی چیز ہوئی ہے، تو ایسا نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود مرتضیٰ وہاب اور ان کی کونسل کو اب شہر کی بہتری کے لیے کام کرنا چاہیے۔ مرتضیٰ وہاب اور ان کی کونسل کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ بلدیاتی قانون کسی قسم کا اختیار میئر یا کونسل کو نہیں دیتا ہے۔ میئر کے اختیارات میں نہ واٹر اینڈ سیوریج بورڈ ہے، نہ بجلی ہے، نہ پولیس اس کے ماتحت ہے اور نہ ہی سالڈ ویسٹ موجود ہے۔ وہ صرف ایک شوپیس کی طرح ہے۔

  مرتضٰی وہاب کے لیے سب سے بڑا چیلنج اختیارات کا ہوگا
مرتضٰی وہاب کے لیے سب سے بڑا چیلنج اختیارات کا ہوگا

’اگر یاد ہو تو مرتضیٰ وہاب جب ایڈمنسٹریٹر تھے تب انہوں نے تنگ آکر استعفٰی دے دیا تھا، اب وہ میئر شپ کے حوالے سے کیا کریں گے؟ اب تو کونسل کے لوگ بھی ان کے ماتحت ہیں۔ بہرحال کراچی کے لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ یہ ایک عمل ہے جو ہونا ضروری تھا اور ہوگیا لیکن اس عمل سے امید رکھنا عقلی بات نہیں ہوگی۔

’کے ایم سی کے پاس مالی خودمختاری نہیں ہے۔ وہ محکوم ہے، ایسے میں آپ اس سے کیا توقع کرتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس وسائل اور اختیارات ہوتے تو پھر بات اور ہوتی۔

’میں نے ایڈمنسٹریٹر کے طور پر ہفتہ صفائی شروع کیا تو میری بیٹی نے مجھے ٹی وی پر جھاڑو لگاتے ہوئے دیکھا، اس سے کسی نے کہہ دیا کہ تمہارا بابا شہر کا سب سے بڑا بھنگی ہے۔ آج کے میئر کے پاس شہر کا سب سے بڑا بھنگی بننے کا بھی اختیار نہیں ہے۔ وہ دکھاوے کے لیے جھاڑو لگا سکتا ہے لیکن قانونی طور پر اسے اس کا بھی اختیار حاصل نہیں۔

’اگر جماعت اسلامی یا پی ٹی آئی کا میئر بنتا تو وہ حکومت سے اختیارات کا مطالبہ کرتے۔ اب چونکہ پیپلز پارٹی اپنے میئرکو خود تنخواہ دے گی اور وہ صوبائی حکومت کے لیے کام کریں گے تو اب بہت تالیاں بجتی رہیں گی، ایک دوسرے کو ہار بھی پہنائے جائیں گے اور کراچی کا حال ویسا ہی رہے گا جیسا اس وقت ہے‘۔


'مرتضیٰ وہاب کا امتحان ابھی ختم نہیں ہوا'

مظہر عباس

’سینیئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس آج ہونے والے میئر کراچی کے انتخاب کے بارے یہ رائے رکھتے ہیں کہ ’جب آپ انتخابی عمل میں حصہ لیتے ہیں تو آپ ان انتخابات کی ساکھ کو تسلیم کررہے ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں جماعت اسلامی کو ووٹنگ میں حصہ ہی نہیں لینا چاہیے تھا۔ اگر حصہ نہیں لیتے تو ان کی پوزیشن زیادہ مستحکم ہوتی۔ ان کے مطابق ان کے حامی ووٹرز کی تعداد 193 ہے جبکہ انہیں ایوان میں 161 ووٹ ملے، ایسے میں انہیں کہنا چاہیے تھا کہ جب تک ان کے تمام نمائندے نہیں آئیں گے تب تک وہ ووٹنگ میں حصہ نہیں لیں گے۔

’معاملہ اب بھی عدالت میں ہی جائے گا۔ مرتضیٰ وہاب کا امتحان ابھی ختم نہیں ہوا کیونکہ انہیں ابھی یوسی چیئرمین بھی منتخب ہونا ہے۔ جب وہ 30 لاپتا یوسی چیئرمین منظرعام پر آئیں گے تب میئر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آسکتی ہے۔ اس طرح جماعت اسلامی باآسانی پہلے ہی اجلاس میں میئر کو ہٹا سکتی ہے۔ لیکن اگر یہ مان لیا جائے کہ ان 30 اراکین کو خرید لیا گیا ہے تو پھر جماعت اسلامی کے 193 کے دعوے کا کیا بنے گا؟ بہرحال یہ حقیقت ہے کہ جس طرح اس الیکشن کو ہونا چاہیے تھا یہ اس طرح سے ہوا نہیں۔

’پی پی پی کا یہ موقف ہے کہ انحراف کے حوالے سے قوانین کا مقامی حکومت پر اطلاق نہیں ہوتا۔ اگر جماعت اسلامی پی ٹی آئی کے اراکین کو ملا کر یہ کہہ رہی ہے کہ ان کے پاس 193 ووٹ کی اکثریت ہے تو اس انتخاب کے بعد جو پریس کانفرنس ہوئی اس میں حافظ نعیم کے ساتھ پی ٹی آئی کے اراکین کیوں موجود نہیں تھے؟ اگر پی ٹی آئی کا فارورڈ بلاک واقعی فارورڈ بلاک ہے تو یہ جماعت اسلامی کے اکثریت رکھنے کے دعوے کی نفی ہوگا۔ اس تمام صورتحال سے پہلے بھی پی ٹی آئی سندھ میں اندرونی اختلافات تھے۔

’دلچسپ بات یہ ہے کہ آج ٹاؤن چیئرمین کے انتخابات بھی منعقد ہوئے لیکن اس کا اتنا شور نہیں ہوا جیسا کہ میئر کے انتخابات کے لیے ہوا اور وہ عمل پرسکون طریقے سے مکمل ہوگیا۔

’پی پی پی کے لیے ضرروی ہوگا کہ وہ ہر ٹاؤن کے ساتھ منصفانہ سلوک کرے۔ لیکن کوئی بھی میئر بن جائے بلدیاتی حکومت کو بااختیار بنائے بغیر کراچی کا مسئلہ کبھی حل نہیں ہوگا۔ کراچی میں میئر کے اختیارات انتہائی محدود ہیں۔ میئر کے زیرِ اثر نہ ڈی ایچ اے ہے، نہ کنٹونمنٹ اور نہ ہی وفاقی حکومت کے ادارے۔

’کراچی کے مسائل حل کرنے میں برسوں نہیں لگیں لیکن اگر یہاں صرف نالوں کی صفائی ہو، پینے کا صاف پانی فرہم ہو، کراچی کی اچھی سڑکوں کو بحال کیا جائے، اچھی ٹرانسپورٹ لائی جائے، کراچی سرکلر ریلوے کو دوبارہ چلایا جائے تو بہت حد تک مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ دنیا بھر میں میئر بااختیار ہوتا ہے لیکن ہمارے یہاں ایسا نہیں ہے‘۔


'جو فرد کسی حلقے سے جیت کر نہ آیا ہو وہ پورے شہر کا میئر کیسے بن سکتا ہے؟'

شاہ زیب جیلانی

میئر کراچی کے انتخاب پر بات کرتے ہوئے سینیئر صحافی شاہ زیب جیلانی کا کہنا تھا کہ ’خدا خدا کرکے انتخابات منعقد ہوئے ہیں۔ پی پی پی نے اس حوالے سے تاخیر کی، معاملات عدالت میں گئے، جماعت اسلامی نے بھر پور مہم چلائی اور اب بلآخر یہ انتخابات ہوگئے ہیں۔ اس پورے عمل پر سوال اٹھتے ہیں کہ کیا یہ عمل شفاف تھا یا نہیں۔ لیکن ہمارے ملک کی مجموعی صورتحال میں ہم نے جتنے بھی انتخابات دیکھیں ہیں ان کے مقابلے میں اس انتخاب میں کچھ بھی نیا نہیں ہوا۔

’پی ٹی آئی کے فارورڈ گروپ کے ایوان میں نہ آنے پر بہرحال سوالات ضرور کھڑے ہوتے ہیں لیکن 9 مئی کے بعد ملکی اور مقامی سیاست تیزی سے تبدیل ہوئی۔ حافظ نعیم الرحمٰن صاحب ظاہر ہے شکایت کریں گے لیکن نظر یہی آرہا ہے کہ یہ عمل مکمل ہوچکا ہے۔ اسے تسلیم بھی کرلیا جائے گا شاید اسے کورٹ میں چیلنج بھی کیا جائے۔ جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی خوش نہیں ہوں گی لیکن مجموعی طور پر اس انتخابی عمل کی ساکھ کو تسلیم کرلیا جائے گا۔

’پیپلز پارٹی اسٹیٹس کو کی جماعت ہے اور وہ 15 سال سے صوبے پر حکومت کررہی ہے۔ صرف کراچی نہیں بلکہ حیدرآباد سکھر سمیت پورے سندھ سے ان کے بلدیاتی نمائندے بلامقابلہ منتخب ہوکر آئے ہیں۔ اس سے واضح ہے کہ پورے سندھ پر پیپلز پارٹی نے اپنی گرفت مضبوط کرلی ہے اور یہ یک دم نہیں ہوا، انہوں نے ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے ساتھ جو ہوا اس کا فائدہ اٹھایا ہے۔ اب یہ پیپلز پارٹی کے لیے سنہرا موقع ہے کہ وہ اس شہر کو اون کرے، اس کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں کیونکہ دہائیوں بعد پیپلز پارٹی کا شہر میں اپنا میئر لانا ایک بہت بڑی جیت ہے۔

شاہ زیب جیلانی نے حافظ نعیم الرحمٰن اور مرتضٰی وہاب کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’حافظ نعیم صاحب نے بہت محنت کی اور شہریوں کے مسائل کو انہوں نے موثر انداز میں اجاگر کیا۔ انہوں نے جماعت اسلامی کی سیاست کی تشکیلِ نو کی اور کراچی کے ترجمان بن کر ابھرے ہیں۔

’دوسری جانب مرتضیٰ وہاب نوجوانوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور ان سے کراچی کے شہریوں کی امیدیں وابستہ ہیں۔ انہیں اب عملی طور پر ثابت کرنا ہوگا کہ وہ اس عہدے کے حقدار ہیں۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ مرتضیٰ وہاب کے انتخابات میں کھڑے ہونے کا سول سوسائٹیز کے بہت سے لوگوں نے خیرمقدم کیا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بحیثیت ایک شخصیت مرتضیٰ وہاب کا شمار پیپلز پارٹی کے ایسے میں ہوتا ہے جنہیں نسبتاً صاف ستھرا سمجھا جاتا ہے۔ وہ وکالت کے شعبے سے وابستہ ہیں اور ایک متحرک سیاسی ورکر بھی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ صوبائی اسمبلی کی نشست نہیں جیت سکے اور اس بار بھی وہ کسی یونین کونسل سے جیت کر نہیں آئے اور انہیں میئربنانے کے لیے پیپلز پارٹی کو قانون میں تبدیلی لانا پڑی۔ یہ ایک سوال ہے کہ ایک فرد جو کسی حلقے سے جیت کر نہ آیا ہو وہ پورے شہر کا میئر کیسے بن سکتا ہے۔

’جماعت اسلامی کو حق ضرور حاصل ہے کہ وہ اس نتیجے کو عدالت یا الیکشن کمیشن میں چیلنج کریں لیکن مجھے لگتا ہے کہ سیاست میں ایک ایسا مرحلہ آتا ہے جب آپ کو زمینی حقائق کو تسلیم کرنا ہوتا ہے۔ جب آپ ان حقائق کو تسلیم نہیں کرتے اس سے مسلسل انکار کرتے ہیں تو اس سے کسی کا بھلا نہیں ہوتا نہ ملک کا نہ سیاست کا نہ ہی کسی پارٹی کا۔ ہم نے دیکھا کہ پی ٹی آئی اس سے انکاری رہی اور ملک کو کہاں لا کر کھڑا کردیا۔

’آج ایک مرحلہ مکمل ہوگیا ہے جماعت اسلامی کو مایوسی ہوئی ہوگی لیکن اب انہیں اسے تسلیم کرکے کے ایم سی میں بیٹھنا چاہیے اور بطور اپوزیشن اپنا کردار ادا کرنا چاہیے کیونکہ ایک صحت مند جمہوریت کے لیے اپوزشن کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے۔ جماعت اسلامی نے جتنی محنت کی ہے اسے پیچھے نہیں چھوڑنا چاہیے اور شہر کو بہتر بنانے کے لیے کام کرنا چاہیے۔

’زمینی صورتحال یہ ہے کہ کے ایم سی میں پی پی پی کے ساتھ جے یو آئی اور ن لیگ ہیں۔ جبکہ پی ٹی آئی کے فارورڈ بلاک نے حمایت نہیں کی تو مخالفت بھی نہیں کی۔ مجھے نہیں لگتا کہ اس صورتحال میں گنجائش ہو کہ اسے پلٹ دیا جائے۔ اس عمل میں ہمارے اصل حاکم کا بھی عمل دخل ہوتا ہے اس لیے مجھے نہیں لگتا کہ آگے کوئی اپ سیٹ ہوگا‘۔


'جماعت اسلامی نے اس انتخاب کو سیاست کے بجائے اعدادوشمار کا کھیل سمجھا'

عابد حسین

سینیئر صحافی اور روزنامہ دنیا کے چیف رپورٹر عابد حسین صاحب کا میئر کراچی کے انتخاب کے حوالے سے کہنا تھا کہ ’جماعت اسلامی نے دو بڑی غلطیاں کیں۔ ایک یہ کہ کراچی کے وسیع تر مفاد میں انہیں پی پی پی کے ڈپٹی میئر کے عہدے کی پیشکش کو قبول کرلینا چاہیے تھا۔ یوں جماعت اسلامی کراچی کی بھرپور خدمت کرسکتی تھی۔

’دوسری غلطی یہ کی کہ انہوں نے ٹوٹ پھوٹ کی شکار پی ٹی آئی کی حمایت لےکر درست فیصلہ نہیں کیا۔ انہوں نے یہ نہیں سوچا جس جماعت کے اراکین اپنی وفاداریاں تبدیل کررہے ہیں، کیا وہ میئر کے الیکشن میں ان کا ساتھ دے پائے گی۔

’یونین کونسل کا رکن سیاست میں خریدو فروخت کے عمل کا حصہ بن جائے تو یہ ہمارے لیے شرمناک بات ہے۔ یہ عین ممکن تھا کہ اگر جماعت اسلامی پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد نہ کرتی تو شاید یہ 30 اراکین آج حاضر ہوتے۔ ان اراکین میں سے کچھ جماعت کو ووٹ دے دیتے جبکہ کچھ پیپلز پارٹی کے حق میں ووٹ دیتے۔ لیکن انہوں نے یہ موقع بھی گنوا دیا۔

’جو لوگ سیاست کو خدمت کی غرض سے کررہے ہیں انہیں شہر کی بھلائی کے حوالے سے سوچنا چاہیے۔ ہمارے پاس مثال موجود ہے کہ ماضی میں جماعت اسلامی کے نعمت اللہ خان اور مسلم (ق) کے طارق حسن نے باہمی تعاون سے کام کیا۔ تو دو جماعتوں کا ایک ساتھ بیٹھ کر کام کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔

  ماضی میں نعمت اللہ خان اور  طارق حسن نے باہمی تعاون سے کام کیا—تصویر: ڈان نیوز
ماضی میں نعمت اللہ خان اور طارق حسن نے باہمی تعاون سے کام کیا—تصویر: ڈان نیوز

’پیپلز پارٹی بلدیاتی اور صوبائی حکومت کے لحاظ سے اب صوبے کی مالک بن چکی ہے۔ مجھے یہ لگتا ہے کہ پی پی پی نے اپنا رویہ ماضی کی نسبت تبدیل کیا ہے۔ ماضی میں ان پر الزام تھا کہ انہوں نے کراچی کو کھنڈر بنادیا ہے لیکن جب مرتضیٰ وہاب کو ایڈمنسٹریٹر بنایا گیا تب انہیں احساس ہوا کہ انہیں کراچی کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔

’میرے خیال سے اس پورے عمل میں جماعت اسلامی کو سیاسی حوالے سے شکست ہوئی۔ انہوں نے اسے سیاست کے بجائے اعدادوشمار کا کھیل سمجھا۔ اگر وہ مفاہمت کرکے ڈپٹی میئر کا عہدہ تسلیم کرلیتے تو آگے انہیں اس کا بہت فائدہ ہوتا اور پھر شاید اگلے انتخابات میں وہ اکثریت بھی حاصل کرلیتے‘۔


'بلدیاتی قانون میں تحریک عدم اعتماد کی گنجائش موجود ہے'

عبدالجبار ناصر

سینیئر صحافی اور کراچی کی بلدیاتی سیاسیت پر گہری نظر رکھنے والے عبدالجبار ناصر کا کہنا تھا کہ سندھ اسمبلی کی جانب سے کی جانے والی قانون سازی کے مطابق ووٹنگ کے لیے ایوان کا مکمل ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر آج محض 50 لوگ بھی ایوان میں موجود ہوتے تو بھی ووٹنگ کروائی جاسکتی تھی اور اس میں اکثریت حاصل کرنے والا فاتح قرار دیا جاتا۔ اس طرح یہ بات طے ہے کہ مرتضیٰ وہاب کو آج کی ووٹنگ میں اکثریت ملی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جس طرح کسی بھی چیئرمین پر ووٹ ڈالنے کے لیے دباؤ نہیں ڈالا جاسکتا اسی طرح کسی کے ساتھ ووٹ نہ ڈالنے کے لیے زبردستی نہیں کی جاسکتی ہے۔ دونوں ہی معاملات میں یہ ووٹ ڈالنے والے کا استحقاق ہے کہ وہ ووٹ ڈالے یا غیر حاضر رہے، گوکہ جمہوری اقدار کے تحت رائے شماری میں حصہ لینا چاہیے مگر حصہ نہ لینے پر کوئی قانونی گرفت نہیں۔

اگر جماعت اسلامی سمجھتی ہے کہ آج غیر حاضر ہونے والے اراکین ان کے ساتھ ہیں تو وہ ان اراکین کے ایوان میں آنے کے بعد آج منتخب ہونے والے میئر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرسکتی ہے اور بلدیاتی قانون میں اس کی گنجائش بھی موجود ہے۔

محمد عمید فاروقی

عمید فاروقی ڈان کے سابق اسٹاف ممبر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
خولہ اعجاز

خولہ اعجاز ڈان کی اسٹاف ممبر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔