• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

مئی کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ 25 کروڑ 50 لاکھ ڈالر سرپلس رہا

شائع June 20, 2023
کم کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے باوجود ڈالر کی ناقص آمد نے صورتحال کو مزید خراب کر دیا— فائل فوٹو: رائٹرز
کم کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے باوجود ڈالر کی ناقص آمد نے صورتحال کو مزید خراب کر دیا— فائل فوٹو: رائٹرز

ملک نے مئی کے دوران 25 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کا سرپلس درج کیا جو گزشتہ سال کے اسی مہینے کے مقابلے میں ایک ارب 50کروڑ 6 لاکھ ڈالر خسارے میں تھا اس طرح ختم ہونے والے مالی سال میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ مجموعی طور پر کم ہوا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی جانب سے پیر کو رات گئے جاری کردہ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ مالی سال 2023 میں جولائی سے مئی کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 80.58 فیصد کم ہوکر صرف 2 ارب 94 کروڑ 30 لاکھ ڈالر رہ گیا ہے جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 15 ارب 16 کروڑ ڈالر تھا۔

کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں تیزی سے کمی کے باوجود، خود مختار ڈیفالٹ کے خدشات اب بھی منڈلا رہے ہیں کیونکہ حکومت برآمدات اور ترسیلات زر میں تیزی سے کمی کے درمیان اپنے کم ہوتے زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے میں ناکام ہے۔

کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے اس بڑے پیمانے پر کم ہونے سے معیشت کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا کیونکہ تجارتی خسارے کو کم کرنے کے لیے درآمدات میں کٹوتی کی گئی تھی لیکن اس کی باعث خام مال کی کمی ہوئی جس کی وجہ سے صنعتی پیداوار میں کمی آئی۔

اسٹیٹ بینک کی پابندیوں کے درمیان مالی سال 2023 کے ابتدائی 11 ماہ کے دوران اشیا کی درآمدات 48 ارب 90 کروڑ ڈالر تک کم ہو گئیں جو گزشتہ سال کی اسی مدت میں 64 ارب 33 کروڑ 90 لاکھ ڈالر تھیں۔

تاہم اس زبردست کمی نے معاشی نمو کو بری طرح متاثر کیا جو مالی سال 2022 کی 6.1 فیصد سے گر کر اس سال 0.29 فیصد رہ گئی۔

اسٹیٹ بینک کے جاری کردہ اعداد و شمار میں یہ بھی ظاہر ہوا کہ سرپلس اپریل کے 7 کروڑ 80 لاکھ ڈالر سے زیادہ تھا، رواں مالی سال کی دوسری ششماہی کے بیشتر حصے میں یہ رجحان مثبت رہا۔

البتہ 11 مہینوں میں کم کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے باوجود ڈالر کی ناقص آمد نے صورتحال کو مزید خراب کر دیا، ملک کے پاس تقریباً 4 ارب ڈالر کے ذخائر ہیں، وہ بھی قرضے پر لیے گئے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کے قرضے کی ڈیڈ لائن 30 جون کو ختم ہونے والی ہے لیکن فنڈ نے یہ واضح نہیں کیا کہ 7 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کی باقی رقم جاری ہوگی یا نہیں، یہ غیر یقینی صورتحال مالیاتی حلقوں میں بے چینی پیدا کر رہی ہے۔

اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر رضا باقر نے ملک کے بیرونی اکاؤنٹ پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔

ان کا مؤقف تھا کہ آئی ایم ایف کے بغیر پاکستان دیوالیہ ہوسکتا ہے، سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل بھی ڈیفالٹ کے بارے میں بات کرتے رہے ہیں بشرط یہ کہ پاکستان فنڈ کے ساتھ معاہدہ کر لے۔

ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف مالی سال 2024 کے بجٹ میں فراہم کردہ ڈیٹا پر شکوک و شبہات کا اظہار کر رہا ہے اور یہی بنیادی وجہ ہے کہ پہلے پاکستان نے ڈیٹا شیئر کرنے سے گریز کیا اور کہا تھا کہ آئی ایم ایف بجٹ کا حصہ نہیں ہے۔

تاہم حکومت نے بعد میں بجٹ کے اعداد و شمار فراہم کیے لیکن آئی ایم ایف کے نئے اعتراضات اور قرض کے اجرا کے لیے نئی پیشگی شرائط کے بارے میں ابھی تک چیزیں واضح نہیں ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024