نریندر مودی کا دورہ، امریکا کی ہنرمند بھارتیوں کیلئے ویزوں میں آسانی پیدا کرنے کی یقین دہانی
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورے کے بعد امریکا کی جانب سے ہنرمند بھارتیوں کے وہاں رہنے اور ملازمت کرنے کے لیے ویزا میں توسیع کے سلسلے میں راہ ہموار کی جائے گی۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق وزیراعظم نریندر مودی کی طرف سے رواں ہفتے ہنرمند بھارتی شہریوں کے امریکا میں رہنے اور ملازمت کرنے میں مدد کے لیے سرکاری دورہ کرنے کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے بھارتی شہریوں کے وہاں رہنے اور ملازمت کرنے میں آسانی پیدا کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ امریکی محکمہ داخلہ کی طرف سے ممکنہ طور پر آج یہ اعلان کیا جائے گا کہ بھارتی اور دیگر غیرملکی ملازمین بیرونی ممالک جائے بغیر امریکا میں ہی اپنی ایچ 1بی ویزا میں توسیع کر سکتے ہیں۔
امریکا کے ایچ 1بی ویزا پروگرام میں سب سے زیادہ بھارتی شہری شامل ہیں اور مالی سال 2022 میں ایچ 1بی پروگرام کے 4 لاکھ 42 ہزار میں سے 73 فیصد بھارتی شہری شامل تھے۔
ایک امریکی حکام نے بتایا کہ ہم سب اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارے لوگوں کی نقل و حرکت ہمارے لیے سب سے بڑا اثاثہ ہے۔
حکام نے کہا کہ ’اور اس طرح ہمارا مقصد کسی طرح سے کثیر جہتی طریقے سے اس تک پہنچنا ہے اور محکمہ خارجہ چیزوں میں تبدیلی لانے کے پیش نظر تخلیقی راستے تلاش کرنے کے لیے سخت محنت کر رہا ہے۔
تاہم محکمہ خارجہ کے ترجمان نے اس سوال پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا کہ اس کے لیے کس طرح کے ویزے درکار ہوں گے۔
ترجمان نے وضاحت کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ پائلٹ پروگرام اگلے ایک سے دو برسوں میں پہل کی پیمائش کرنے کے ارادے کے ساتھ بہت کم کیسز کے ساتھ شروع ہوگا۔
رپورٹ کے مطابق ان اقدامات میں تبدیلی بھی ہو سکتی ہے کیونکہ جب تک ان کا اعلان نہیں کیا جاتا یہ حتمی نہیں ہیں۔ تاہم وائٹ ہاؤس نے تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔
ہر سال امریکی حکومت مہارت رکھنے والے غیر ملکی مزدوروں کو بلانے کے لیے 65 ہزار ایچ 1بی ویزے فراہم کرتا ہے جبکہ ایڈوانسڈ ڈگری رکھنے والوں کے لیے 20 ہزار ویزے فراہم کیے جاتے ہیں جس کی مدت 3 برس ہوتی ہے جس کے بعد اس میں مزید 3 برس تک توسیع کی جا سکتی ہے۔
امریکی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق حالیہ برسوں میں سب سے زیادہ ایچ 1بی ورکرز ویزے فراہم کرنے والی کمپنیوں میں بھارت کی انفوسیز اور ٹاٹا کنسلٹنسی سروسز شامل ہیں جبکہ امریکا کی ایمازون، الفابیٹ اور میٹا شامل ہیں۔
ذرائع نے کہا کہ پائلٹ پروگرام میں کچھ ایل-1 ویزا کے ورکرز بھی شامل ہوں گے جس کے ذریعے امریکا میں ہی ایک سے دوسری کمپنی میں لوگوں کو منتقل کیا جاتا ہے۔
ایک اور ذرائع نے بتایا کہ بھارت میں امریکی سفارت خانے میں تاخیر کا شکار ویزے جاری کرنے کے لیے ایک علیحدہ پہل میں بھی بلآخر پیش رفت ظاہر ہو رہی ہے اور رواں ہفتے دونوں ممالک کے حکام واشنگٹن میں اس معاملے پر بات چیت کریں گے۔
واضح رہے کہ امریکا میں رہنے اور بالخصوص ٹیکنالوجی صنعت میں ملازمت کے لیے ویزا حاصل کرنے کے حوالے سے بھارت کو کافی عرصے سے خدشات اور مشکلات کا سامنا رہا ہے۔
امریکی محکمہ لیبر کے مطابق اپریل کے آخر میں امریکا میں ایک کروڑ ملازمتیں پیدا ہوئیں۔
امریکہ میں کچھ ایچ 1بی ویزا ہولڈرز ان ہزاروں ٹیکنالوجی ورکرز میں شامل ہیں جنہیں اس سال نوکری سے نکال دیا گیا ہے اور انہیں 60 دن کے ’گریس پیریڈ‘ کے اندر نئے آجروں کو تلاش کرنے یا اپنے آبائی ملک واپس جانے کے لیے مشکلات کا سامنا ہے۔
صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ بھارتیوں کو ویزا تک رسائی دینے میں بہتری لانے کے لیے کئی ماہ وقف کر چکی ہے۔
صدر جو بائیڈن چین سے مقابلہ کرنے کے پیش نظر دنیا کے دو بڑے جمہوری ممالک کو ساتھ بٹھانے کی خواہش رکھتے ہیں۔
واضح رہے کہ عالمی وبا کورونا وائرس کی وجہ سے مارچ 2020 میں امریکا کی طرف سے دنیا بھر میں ویزے حاصل کرنے کا عمل روکنے کے بعد سے امریکا کی ویزا سروسز ابھی تک پابندیاں ہٹانے میں مصروف ہے۔
ویزوں پر پابندی کی وجہ سے کچھ خاندانوں کو طویل مدت کے لیے الگ کیا گیا ہے جہاں کچھ اپنے حالات پر افسوس کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لے رہے ہیں۔