• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

ملکی سلامتی کے معاملات براہ راست آرمی کے تحت آتے ہیں، چیف جسٹس

شائع June 23, 2023
جسٹس منصور شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی بھی 7 رکنی بینچ کا حصہ ہیں — فوٹو: سپریم کورٹ پاکستان ویب سائٹ
جسٹس منصور شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی بھی 7 رکنی بینچ کا حصہ ہیں — فوٹو: سپریم کورٹ پاکستان ویب سائٹ

فوجی عدالتوں میں آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے مقدمات چلانے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملکی سلامتی کے معاملات براہ راست آرمی کے تحت آتے ہیں، کیا طریقہ کار ہوگا جس کے تحت مقدمات ملٹری کورٹ کو بھجوائے جائیں گے۔

چیئرمین پی ٹی آئی، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، معروف قانون دان اعتزاز احسن اور سول سائٹی کی جانب سے عام شہریوں مقدمات آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف درخواستوں پر سپریم کورٹ کے 7 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

7 رکنی لارجر بینچ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل ہے۔

سماعت کے آغاز پر سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی روسٹرم پر آگئے، انہوں نے تحریری دلائل بھی جمع کروائے، علاوہ ازیں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے حکومت پنجاب کی جانب سے 9 مئی کے واقعات میں ملوث زیر حراست ملزمان کا ڈیٹا سپریم کورٹ میں جمع کروا دیا۔

رپورٹ میں فوج کی حراست موجود ملزمان، نابالغ بچوں، صحافیوں اور وکلا کا ڈیٹا شامل نہیں ہے، تاہم 9 مئی کے واقعات میں ملوث زیرحراست خواتین کا ڈیٹا جمع کروا دیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق 9 مئی کے واقعات میں 81 خواتین کو حراست میں لیا گیا، گرفتار خواتین میں سے 42 کو ضمانت پر رہا کیا گیا ہے، 9 مئی کے واقعات میں ملوث 39 خواتین اس وقت جوڈیشل ریمانڈ پر جیلوں میں قید ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ایم پی او کے تحت 2258 افراد کی گرفتاری کے آرڈر جاری کیے گئے، 9 مئی کی توڑ پھوڑ کے واقعات میں 3050 افراد ملوث پائے گئے، اس وقت ایم پی او کے تحت 21 افراد جیلوں میں قید ہیں، انسدادِ دہشت گردی قانون کے تحت 9 مئی کے واقعات میں ملوث ملزمان کے خلاف 51 مقدمات درج کیے گئے۔

رپورٹ کے مطابق انسدادِ دہشت گردی قانون کے تحت 1888 افراد کو گرفتار کیا گیا، 108 ملزمان جسمانی ریمانڈ اور 1247 جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں، انسدادِ دہشت گردی قانون کے تحت 33 افراد کی شناخت پریڈ کی گئی، 500 افراد کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے رہا کیا گیا، انسدادِ دہشت گردی قانون کے تحت 232 افراد ضمانت پر رہا ہوئے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ 9 مئی واقعات میں ملوث ملزمان کے خلاف دیگر قوانین کے تحت 247 مقدمات درج کیے گئے، 247 مقدمات کے تحت 4119 افراد کو گرفتار کیا گیا، 86 ملزمان جسمانی ریمانڈ، 2464 کو جوڈیشل ریمانڈ پر بھیجا گیا، دیگر مقدمات میں 368 افراد کی شناخت پریڈ کی گئی، اب تک 1201 افراد کو بری کیا گیا ہے، 3012 افراد کو مختلف مقدمات میں ضمانت پر رہا کیا گیا۔

ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میری درخواست باقی درخواستوں سے کچھ الگ ہے، میں اس پر دلائل نہیں دوں گا کہ سویلین کا ٹرائل آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت ملٹری کورٹس میں نہیں ہو سکتا، یہ بھی نہیں کہتا کہ ملٹری کورٹس کے ذریعے ٹرائل سرے سے غیر قانونی ہے، میں یہ بھی نہیں کہوں گا کہ 9 مئی کو کیا ہوا کیا نہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ سویلین کے ٹرائل کی ماضی میں مثالیں ہیں، فوجی عدالتوں میں فوج داری ضابطے کے تحت کارروائی نہیں ہو سکتی، اس کو چیلنج نہیں کیا، میں نے کسی ملزم کی بریت کو چیلنج نہیں کیا، فوج کے حوالے ملزمان کو کرنے کے عمل میں مخصوص افراد کو چنا گیا، آرمی ایکٹ قانون کو بدنیتی کے تحت استعمال کیا جاتا ہے، عدالت میں جا کر کہا گیا مجھ میں لوگ 15 لوگوں کو حوالے کر دیں، جن افراد کا انسداد دہشت گردی عدالت میں ٹرائل ہو گا ان کو اپیل کا حق ملے گا، جن کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوگا انہیں اپیل کا حق حاصل نہیں۔

ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے مزید کہا کہ میرا مدعا تمام ملزمان میں سے چند کے ساتھ الگ سلوک ہوا، ایک ایف آئی آر میں ساٹھ ملزمان ہیں تو پندرہ ملٹری کورٹس کو دیے جاتے ہیں، ایف آئی آر میں جو الزامات ہیں ان پر تین الگ طرح کے ٹرائل ہو سکتے ہیں، میرا دوسرا نقطہ فیئر ٹرائل کا ہے، ایک الزام پر ٹرائل کے بعد کچھ لوگوں کے پاس اپیل کا حق ہوگا اور کچھ کے پاس نہیں۔

فیصل صدیقی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے پانچ فیصلے موجود ہیں جو آرمی ٹرائل سے متعلق ہیں، 1998 میں ملٹری کورٹس کے خلاف فیصلہ آیا، ملٹری کورٹس کے خلاف فیصلے میں آرمی ایکٹ کو زیر بحث نہیں لایا گیا۔

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ دوسرے کیسز میں آرمی ایکٹ سے متعلق کیا اصول سیٹ کیا گیا ہے؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ بہت کم ایسا ہوا کہ سول کورٹس کو بائی پاس کیا گیا ہو۔

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کن وجوہات کی بنا پر سویلینز کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت کیا جاتا رہا ہے؟ کون سے ایے مخصوص حالات ہیں جن میں ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہو سکتا ہے؟

فیصل صدیقی نے لیاقت حسین، سعید زمان اور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے کیسز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلے یہ کہتے ہیں کہ واضح تفریق ہونی چاہیے، ہم نہیں کہتے کہ لوگوں کا سخت ٹرائل نہ ہو، انسدادِ دہشت گردی عدالت سے زیادہ سخت ٹرائل کہاں ہو سکتا ہے۔

جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیے کہ جو آپ کرائم رپورٹ دکھا رہے ہیں اس میں تو آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات نہیں ہیں، 9 مئی کے واقعات کے مقدمات میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ سے متعلق دفعات کب شامل کی گئیں؟

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ کے دلائل کی بنیاد یہ ہے کہ کس کے پاس اختیار ہے کہ وہ سویلین کا فوجی عدالت میں ٹرائل کرے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ نیشنل سیکیورٹی کے باعث کہا گیا کہ یہ ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوا، اسٹیٹ سیکیورٹی کے حدود میں جائیں گے تو پھر ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہونے کا ذکر ہے۔

جسٹس مظاہر اکبر نقوی نے استفسار کیا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کو کب شامل کیا گیا؟

جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ آپ نہیں سمجھتے کہ پہلے اٹارنی جنرل سے پوچھا جائے کہ مقدمات کیسے بنے؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ دلائل جاری رکھیں، وکلا کے بعد اٹارنی جنرل کو سنیں گے، ہو سکتا ہے اٹارنی جنرل کل مانگی گئی نفصیلات پر آج بیان ہی دیں۔

یہ درخواستیں سپریم کورٹ میں ہی قابلِ سماعت ہیں، ایڈووکیٹ فیصل صدیقی

ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے کہا کہ کل عدالت نے پوچھا تھا کہ یہ درخواستیں پہلے ہائی کورٹ میں نہیں جانی چاہیے تھیں، ایک سے زیادہ صوبوں کا معاملہ ہے ایک ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار نہیں بن سکتا، یہ درخواستیں سپریم کورٹ میں ہی قابلِ سماعت ہیں۔

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا درخواستوں کے قابلِ سماعت ہونے کی حد تک آپ کے دلائل مکمل ہیں؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ جی درخواستوں کے قابل سماعت ہونے تک دلائل مکمل ہیں اب آگے چلتے ہیں۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ ہوسکتا ہے جن لوگوں کو ملٹری کورٹس کے حوالے کیا گیا ان پر الزامات کی نوعیت الگ ہو، آپ صرف مفروضہ پر کہہ رہے ہیں کہ ان لوگوں کے خلاف کوئی شواہد موجود نہیں۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ آپ عمومی بحث پر جا رہے ہیں، یہ بھی علم نہیں ان لوگوں کو کس کس شق کے تحت ملٹری کورٹس بھجا گیا۔

فیصل صدیقی نے کہا کہ فرض کریں ان کے خلاف شواہد بھی موجود ہیں تو دکھاؤں گا کہ انہیں کیسے ملٹری کورٹس نہیں بھجا جاسکتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اپنے دلائل کو متعلقہ نکات تک محدود رکھیں، آج کا دن درخواست گزاروں کے لیے مختص ہے، بے شک 3 بجے تک دلائل دیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ قانون یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ ملٹری کے اندر کام کرنے والے بندہ ہو تو ہی آفیشل سیکریٹ ایکٹ لگے گا، ملٹری حدود کے اندر ہونے کے جرم سے تعلق پر بھی ایکٹ لاگو ہوتا ہے، ملٹری کورٹس میں کسی کو ملزم ٹھہرانے کا کیا طریقہ کار ہے، آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا اطلاق ممنوعہ علاقے عمارات اور کچھ سول عمارات پر بھی ہے۔

جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیے کہ آپ ابھی تک بنیادی پوائنٹ ہی نہیں بتا سکے، آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات ایف آئی آرز میں کب شامل کی گئیں؟ اگر ایف آئی آر میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات ہی شامل نہیں تو کیا کمانڈنگ افسر ملزمان کی حوالگی مانگ سکتا ہے؟

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ آپ سے 2 سوال پوچھ رہے ہیں اس پر آئیں، آپ طریقہ کار بتائیں کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق کیسے ہو گا، آرمی کے اندر ایسے فیصلے تک کیسے پہنچا جاتا ہے کہ فلاں بندہ آرمی ایکٹ کے تحت ہمارا ملزم ہے؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ یہی تو میری دلیل ہے کہ فوج سویلینز کی حوالگی کا مطالبہ نہیں کر سکتی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کوئی دستاویزات تو دکھا دیں جس کی بنیاد پر سویلینز کی حوالگی کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ یہ بھی قانون میں ہے کہ اگر فوج سویلین کی حوالگی کا مطالبہ کرتی ہے تو ریفرنس وفاقی حکومت کو بھیجا جاتا ہے، وفاقی حکومت کی منظوری پر حوالگی کا حتمی فیصلہ کیا جاتا ہے۔

جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ وفاقی حکومت نے کب سویلینز کی فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی منظوری دی؟

جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ آپ ہمیں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا سیکشن 13 نہ پڑھائیں، فیصل صدیقی نے کہا کہ مسئلہ فورم طے کرنے کا ہے کہ کہاں ٹرائل ہوگا، اس پر جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ ٹرائل کا فورم کیسے طے ہوتا ہے یہی سوال ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کسی کی گرفتاری کے لیے آنے سے پہلے فوج اپنے گھر پر کیا تیاری کرتی ہے یہ بتا دیں، فوج کو جب کوئی شخص مطلوب ہو تو وہ کس طریقے کار کے تحت حوالگی کا مطالبہ کرتی ہے، فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ آرمی ایکٹ میں شکایت یا ایف آئی آر کا کوئی طریقہ کار نہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ایک کمانڈنگ افسر جب مجسٹریٹ کے پاس جاتا ہے تو کس بنیاد پر جا کر بندہ مانگتا ہے؟

فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ کریمنل پروسیجر کی سیکشن 549 میں اس کا جواب ہے، اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اگر 549 میں اس کا جواب نہ ہوا تو جرمانہ ہو گا۔

سیکریٹ ایکٹ لگانے کیلئے کوئی انکوائری یا تحقیقات تو ہونی چاہیے، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیکریٹ ایکٹ لگانے کے لیےکوئی انکوائری یا تحقیقات تو ہونی چاہیے، کامن سینس کی بات ہے کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت جرائم کا تعین فوج نے ہی کرنا ہے، فوج انسداد دہشت گردی عدالت میں سویلینز کی حوالگی کی درخواست دائر کر سکتی ہے، فوج کی سویلینز کی حوالگی کی درخواست میں صرف ٹھوس بنیاد نہیں دی گئی، اٹارنی جنرل سے پوچھیں گے کہ کیوں کوئی ٹھوس بنیاد بنا کر سویلینز کی حوالگی کی درخواست نہیں کی گئی۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ ملزمان کے ریمانڈ میں بنیادی چیز مسنگ ہے، ریمانڈ آرڈر میں ذکر نہیں ملزمان کی حوالگی کیسے اور کن شوائد پر ہوئی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ میں شکایت کو ایف آئی آر کے طور پر لیا جاتا ہے؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا اطلاق تو پھر سول عمارات پر بھی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ وہ زیادہ پیچیدہ ہو جائے گا، آپ ان مقدمات میں طریقہ کار کا بتائیں۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ آپ نے کہا آرمی ایکٹ کو رہنے دیں طریقہ کار کو دیکھیں، پھر تو ہمیں انفرادی طور پر ایک ایک شخص کی گرفتاری کا معاملہ دیکھنا پڑے گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ ایسا کریں کہ بریک لے لیں، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ کافی وغیرہ پئیں، سوالات کے جوابات نہ دینے پر آپ کو جرمانہ دینا پڑے گا۔

دریں اثنا عدالت نے کیس کی سماعت میں 15 منٹ کا وقفہ کر دیا، وقفے کے بعد فیصل صدیقی نے اپنے دلائل کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آرمی ایکٹ میں ٹرائل کیسے شروع ہوتا ہے، اس کا جواب آرمی رولز 1954 میں موجود ہے، رول 157 کی سب سیکشن 13 میں طریقہ کار درج ہے، یہاں 9 اور 10 مئی کو واقعات ہوتے ہیں اور 25 مئی کو حوالگی مانگ لی جاتی ہے، یہاں تو ہمیں حقائق میں جانے کی ضرورت بھی نہیں، ملزمان کی حوالگی مانگنے کی کوئی وجہ موجود نہیں ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ چارج سے پہلے انکوائری کا ہم اٹارنی جنرل سے پوچھیں گے، آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ان ملزمان کے خلاف بظاہر کوئی الزام نہیں؟

فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ میں یہ کہہ رہا ہوں چارج کرنے سے پہلے سخت انکوائری ہونی چاہیے، 9 مئی کے ملزمان سے متعلق سخت انکوائری پہلے ہونی چاہیے، تاریخ میں کبھی 1998 کے علاوہ سویلین حکومت نے سویلینز کا ملٹری ٹرائل نہیں کیا، 9 مئی کے ملزمان سے متعلق دوسری عدالتوں میں ٹرائل کا قانونی آپشن موجود ہے، اگر کیس کسی آرمی آفیشل پر ہوتا تو بات اور تھی اب کورٹ مارشل کے علاوہ آپشن نہیں، آئینی ترمیم میں بھی سویلین کے علاوہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل پر شرط رکھی گئی۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ سویلینز کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل الگ نوعیت کے حالات میں ہو گا، آپ یہ بھی پھر واضح کریں کہ وہ الگ نوعیت کے حالات کیا ہوں گے، کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ محدود معاملات پر ہی سویلینز کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہو سکتا ہے۔

فیصل صدیقی نے کہا کہ چیئرمین نیب اختیارات کیس میں 2003 کا ایک سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے، عدالت نے کہا تھا عام عدالت سے کیس تب تک نیب کورٹ نہیں جائے گا جب تک چیئرمین کے صوابدیدی اختیارات اسٹرکچر نہیں ہوتے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا کبھی ایسا ہوا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل صرف مجسٹریٹ نے کیا ہو؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ جی میں اس حوالے سے فیصلوں کی نظریں پیش کروں گا۔

سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین کے دلائل

دریں اثنا سول سوسائٹی کراچی کے وکیل فیصل صدیقی کے دلائل مکمل ہوگئے جس کے بعد سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین روسٹروم پر آگئے۔

احمد حسین نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ سوال یہ ہے کیا سویلین جن کا فوج سے تعلق نہیں ان کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہو سکتا ہے؟ میرا مؤقف ہے کہ موجودہ حالات میں سویلین کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل نہیں ہو سکتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا اعتراض یہ بھی نہیں کہ لوگوں کے خلاف کارروائی نہ ہو، ہمارا نقطہ فورم کا ہے کہ کارروائی کا فورم ملٹری کورٹس نہیں، سوال یہ ہے سویلینز کے کورٹ مارشل کی آرمی ایکٹ میں گنجائش کیا ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ کا مقصد ہے کہ آرمڈ فورسز میں ڈسپلن رکھا جائے، جن افراد کو مسلح افواج کی کسی کمپنی وغیرہ میں بھرتی کیا گیا ہو ان پر ہی اس ایکٹ کا اطلاق ہوگا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کے مطابق آئین کےکون سے بنیادی حقوق ملٹری کورٹس میں ٹرائل سے متاثر ہوں گے؟ احمد حسین نے جواب دیا کہ آرٹیکل 9، 10 اور 25 میں دیے گئے حقوق متاثر ہوں گے، 21 ویں آئینی ترمیم کا فیصلہ اسی 7 رکنی بینچ کو آرمی ایکٹ کی سیکشن 2 ڈی ون کو کالعدم کرنے سے نہیں روکتا، اگر عدالت سمجھتی ہے 21ویں ترمیم کے بعد اس کے ہاتھ بندھ گئے ہیں تو فل کورٹ ہی بنا لیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ میں تو اسی میں مطمئن ہوں گا اگر اتنا ہی بینچ بیٹھے جتنے رکنی بینچ نے 21 ویں ترمیم کا فیصلہ دیا تھا۔

اکیسویں آئینی ترمیم کیس میں عدالت نے کہا تھا فوجی عدالتیں مخصوص حالات کیلئے ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اکیسویں آئینی ترمیم کیس میں عدالت نے کہا تھا فوجی عدالتیں مخصوص حالات کے لیے ہیں، اس فیصلے میں جنگی حالات جیسے الفاظ استعمال کیے گئے، اس پر احمد حسین نے کہا کہ میرے علم میں نہیں کہ موجودہ حکومت کا مؤقف ہو کہ آج کل جنگی حالات ہیں۔

دریں اثنا سماعت کے دوران نماز جمعہ کا وقفہ کردیا گیا، ڈیڑھ بجے نماز جمعہ کا وقفہ ختم ہونے کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہو ا تو جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے دلائل کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ فیئر ٹرائل ہر ایک کا بنیادی حق ہے جس سے محروم نہیں کیا جا سکتا، کورٹ مارشل کارروائی کے فیصلے آسانی سے میسر بھی نہیں ہوتے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کورٹ مارشل کی کارروائی کرتا کون ہے؟ احمد حسین نے جواب دیا کہ ایک پینل ہوتا ہے جو کارروائی کنڈکٹ کرتا ہے، ملٹری کورٹ فیصلے میں صرف اتنا لکھتی ہے کہ قصور وار ہے یا نہیں، اب فیصلے میں وجوہات کا ذکر ہوتا ہے یا نہیں اٹارنی جنرل بتا سکتے ہیں، ملٹری کورٹس میں اپیل کا تصور بھی آرمی افسران کے پاس ہی ہے، آرمی چیف ہی سارے عمل میں فائنل اتھارٹی ہے، کلبھوشن یادیو کے لیے اپیل کا خصوصی قانون بنایا گیا کہ دیکھا جائے اس غیر ملکی کے ویانا کنونشن میں حاصل حقوق متاثر تو نہیں ہوئی۔

احمد حسین نے کہا کہ پہلے سے موجود قانون میں سویلین کے لیے فیئر ٹرائل جیسی چیزیں موجود نہیں تھیں، آرمی ایکٹ ڈیزائن ہی فوسز کے اندر ڈسپلن کے لیےکیا گیا تھا، آرمی کی سینئر کمانڈ نے پریس ریلیز میں دو نتائج آخذ کیے، پریس ریلیز میں کہا گیا 9 مئی کو ملٹری تنصیبات ہر حملہ کیا گیا، پریس ریلیز میں کہا گیا حملے کے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں، یہ نتائج پہلے سے اخذ کرنے کے بعد وہ خود اس معاملے کے جج نہیں ہو سکتے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کن سویلینز کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت ہو سکتا ہے ؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ملٹری پرسنل کے علاوہ سویلینز کے حقوق کا تحفظ دیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سویلینز میں تو ہر شہری آتا ہے، کیا ٹرائل صرف مخصوص افراد کا ہو سکتا ہے؟

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ سویلینز کی تعریف کیا ہوگی، کیا ریٹائرڈ آرمی افسران بھی سویلینز میں آئیں گے؟ احمد حسین نے جواب دیا کہ آرمی ایکٹ فئیر ٹرائل یا سویلینز کو مدنظر رکھ کر نہیں بنایا گیا۔

کیا دیگر ممالک میں بھی سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوتے ہیں؟ جسٹس منصور علی شاہ

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا دیگر ممالک میں بھی سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوتے ہیں؟ احمد حسین نے جواب دیا کہ ہر ملک کا اپنا قانون ہے، برطانیہ میں سویلینز کا فوجی ٹرائل ہو سکتا ہے، اس پر جسٹس منصور نے استفسار کیا کہ سینئر کمانڈ کے فیصلوں کے بعد کیا فوجی عدالت میں کوئی افسر فیئر ٹرائل پر عملدرآمد کر سکتا ہے؟ اپنے مقدمے کے آپ خود جج نہیں بن سکتے۔

جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل احمد حسین نے 1975 کے سپریم کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آرمی ایکٹ میں جو حصہ سویلین سے متعلق ہے اس ہر عدالت فیصلہ کر سکتی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ آرمی ایکٹ تو آرمی سے متعلق ہی قانون ہے تفریق کیسے کریں گے، آپ کہہ رہے ہیں آرمی ایکٹ کو بنیادی حقوق کی کسوٹی پر نہیں پرکھا جاتا، پھر آپ کہتے ہیں یہ سویلین کی بات بھی کرتا ہے اسے عدالت دیکھے۔

وکیل احمد حسین نے کہا کہ پارلیمنٹ کے پاس اختیار ہی نہیں کہ وہ سویلین کے کورٹ مارشل کے لیے قانون سازی کر سکے، عدالت نے دیکھنا ہے کہ کورٹ مارشل آئینی ہے یا غیر آئینی، فوجی عدالتیں صرف اس وقت کام کر سکتی ہیں جب عام عدالتیں کام نہ کر رہی ہوں، حکومت کو عام عدالتوں پر یقین کیوں نہیں اور صورتحال یہ ہے کہ سویلین لوگوں کی بڑی تعداد کورٹ مارشل ہونے جا رہی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 199 تھری کے تحت ہائی کورٹ کے فوجی عدالتوں کے خلاف اختیارات محدود ہیں، ایف بی علی کیس کا فیصلہ 1962 کے آئین کے تحت تھا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ عام شہریوں کا تعلق آرمی ایکٹ سے کیسے جوڑیں گے؟ کیسے بنیادی حقوق سے محروم کریں گے؟

احمد حسین نے کہا کہ میرا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ عدالت آرمی ایکٹ کی شقوں کا جائزہ لے سکتی ہے، عدالت نے جائزہ لینا ہے کہ آرمی ایکٹ کے تحت سویلینز کا ٹرائل ہو سکتا ہے یا نہیں، اس کی وضاحت نہیں دی گئی حکومت نے سول عدالتوں کے عدم اعتماد کیوں کیا؟ ملٹری ٹرائل کے نتیجے میں کئی شہریوں کو کورٹ مارشل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملکی سلامتی کے معاملات براہ راست آرمی کے تحت آتے ہیں، کیا طریقہ کار ہو گا جس کے تحت مقدمات ملٹری کورٹ کو بھجوائے جائیں گے۔

وکیل احمد حسین نے کہا کہ جاننا چاہتے ہیں کہ ہمارے اتنے ساری شہری کس بنا پر کورٹ مارشل کا سامنا کرنے جا رہے ہیں، ہمیں نہیں پتا ان پر کیا چارج لگنے جا رہا ہے، حکومت ہی بتائے گی تفصیلات کیا ہیں، اور عام عدالتوں میں کیس کیوں نہیں چک سکتا، سویلین کا ملٹری ٹرائل آئین سے مطابقت نہیں رکھتا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس بحث میں نہیں جانا چاہیے کہ سویلین کا آرمی ایکٹ سے کبھی ٹرائل ہو بھی نہیں سکتا، اگر کوئی سویلین کسی آرمی آفیشل سے مل کر ریاست مخالف کچھ کرے تو یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے، ایسی صورتحال میں دونوں کے درمیان تفریق نہیں کی جاسکتی۔

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ کلبھوشن کے لیے قانون عالمی عدالت کے فیصلے پر بنا، ہم کچھ دیر کے لیے اٹارنی جنرل کو بھی سننا چاہتے ہیں، ہم نے ایک سپریم جوڈیشل کونسل کی میٹنگ کے لیے بھی جانا ہے۔

احمد حسین نے کہا کہ تحریری دلائل بھی جمع کروا دوں گا مگر درخواست کا پیراگراف 59 پڑھنا چاہتا ہوں، جسٹس منصور علی شاہ نے حالیہ فیصلے میں کہا تھا بول کے لب آزاد ہیں تیرے، میری گزارش ہو گی کہ اب اس اہم معاملے پر بولیں۔

دریں اثنا جواد ایس خواجہ کے وکیل احمد حسین کے دلائل مکمل ہوگئے۔

اٹارنی جنرل کے دلائل

جواد ایس خواجہ کے وکیل احمد حسین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد پولیس کی تحویل میں کوئی شخص گرفتار نہیں ہے، پشاور میں چار لوگ زیر حراست ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب میں ایم پی او کے تحت 21 افراد گرفتار ہیں، انسداد دہشت گردی قانون کے تحت 141 افراد گرفتار ہیں، سندھ میں 172 افراد جوڈیشل تحویل میں ہیں، 345 افراد گرفتار ہوئے اور 70 رہا ہوئے، ایم پی او کے تحت 117 افراد جوڈیشل تحویل میں ہیں، 102 افراد فوج کی تحویل میں ہیں۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو مزید بتایا کہ فوج کی تحویل میں کوئی خاتون اور کم عمر نہیں ہیں، کوئی صحافی اور وکیل فوج کی تحویل میں نہیں ہیں، خیبرپختونخوا میں 2 بچے تحویل میں تھے، ملٹری کسٹڈی میں ایک پر شک تھا کہ وہ 18 سال سے کم عمر ہے، اس کا ٹیسٹ کروا رہے ہیں، اگر 18 سال سے کم ہوا چھوڑ دیا جائے گا، پالیسی فیصلہ ہے کہ بچے اور خواتین آرمی کی حراست میں نہیں ہوں گے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ صحافیوں سے متعلق کیا پالیسی ہے، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ 9 مئی کے واقعات پر کسی صحافی کو حراست میں نہیں رکھا گیا، وفاقی حکومت کی صحافیوں کے خلاف کارروائی کی کوئی پالیسی نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس وقت دو صوبوں میں نگران حکومت ہے، مہربانی کر کے صوبائی حکومتوں سے رابطہ کریں، صوبائی حکومتوں سے صحافیوں اور وکلا سے متعلق پالیسی کا پوچھیں، بینچ کے کچھ اراکین کو صحافیوں اور وکلا سے متعلق تحفظات ہیں۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت پیر کی صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کردی۔

خیال رہے کہ مذکورہ درخواستوں پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تشکیل دیے گئے 9 رکنی بینچ نے گزشتہ روز سماعت کا آغاز کیا تھا، تاہم دورانِ سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود کے اعتراضات کے بعد 9 رکنی لارجر بینچ ٹوٹ گیا تھا جس کے بعد 7 رکنی بینچ نے سماعت کا دوبارہ آغاز کیا۔

گزشتہ روز ہونے والی سماعت کے دوران عدالت نے ملٹری کورٹس میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف فوری حکم امتناع کی درخواست مسترد کرتے ہوئے 9 مئی کے واقعات کے بعد گرفتار ہونے والے تمام افراد کا ڈیٹا طلب کرلیا تھا۔

درخواستوں کا متن

واضح رہے کہ 2 روز قبل 21 جون کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے فوجی عدالتوں میں آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے مقدمات چلانے کے خلاف دائر 4 درخواستوں کو سماعت کے لیے مقرر کرتے ہوئے اپنی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔

چیئرمین پی ٹی آئی، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، معروف قانون دان اعتزاز احسن اور سول سائٹی کی جانب سے عام شہریوں مقدمات آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔

20 جون کو جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے وکیل ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین کے توسط سے دائر درخواست میں سپریم کورٹ سے فوجی عدالتوں کے ذریعے شہریوں کے ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کی تھی۔

وکیل عزیر چغتائی کے توسط سے عدالت عظمیٰ میں دائر کی گئی درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عام عدالتیں ہوتے ہوئے ملٹری عدالتوں کے ذریعے عام شہریوں کا ٹرائل غیر آئینی قرار دیا جائے اور آرمی ایکٹ کے مختلف سیکشنز آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہیں جنہیں کالعدم قرار دیا جائے۔

اس درخواست سے قبل مختلف شہروں سے سول سوسائٹی کے 5 ارکان نے اپنے وکیل فیصل صدیقی کے ذریعے 9 مئی کے تشدد کے سلسلے میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کو غیر قانونی قرار دینے کی درخواست دائر کی تھی۔

اسی طرح 18 جون کو پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر وکیل اعتزاز احسن نے 9 مئی کے واقعات میں ملوث شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

اعتزاز احسن کی جانب سے وکیل سلمان اکرم راجا نے درخواست دائر کی جس میں شہریوں کےفوجی عدالتوں میں ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے اور وفاقی حکومت کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت نے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے کور کمانڈر فیصلہ پر ربر اسٹمپ کا کردار ادا کیا، سویلین کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 اور 59 آئین سے متصادم ہیں، آرمی ایکٹ قانون کے سیکشن 2 اور 59 کو کالعدم قرار دیا جائے۔

9 مئی کی ہنگامہ آرائی اور بعد کے حالات

خیال رہے کہ رواں سال 9 مئی کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو پیراملٹری فورس رینجرز کی مدد سے القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار کیا جس کے بعد ملک بھر میں ہوئے پر تشدد احتجاج کے دوران املاک کی توڑ پھوڑ جلاؤ گھیراؤ دیکھنے میں آیا۔

احتجاج کے دوران مشتعل افراد نے فوجی تنصیبات، بشمول کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ اور پاکستان بھر میں ریاستی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔

اس واقعے کے بعد، فوج نے اس دن کو ملکی تاریخ کا ایک ’سیاہ باب‘ قرار دیا تھا اور توڑ پھوڑ میں ملوث تمام افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا عزم کیا تھا۔

بعد میں مزید سخت قدم اٹھاتے ہوئے حکومت نے سول اور فوجی تنصیبات پر حملے اور آتش زنی کرنے والوں کو پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ سمیت متعلقہ قوانین کے تحت انصاف کے کٹہرے میں لانے کا فیصلہ کیا۔

اس فیصلے کی قومی سلامتی کمیٹی نے بھی توثیق کی تھی، جو کہ قومی سلامتی کے امور کے لیے ملک کا اعلیٰ ترین فورم برائے رابطہ کاری ہے۔

بعد ازاں 20 مئی کو آرمی چیف نے کہا کہ مئی کے سانحے میں ملوث منصوبہ سازوں، اکسانے والوں، حوصلہ افزائی کرنے والوں اور مجرموں کے خلاف مقدمے کا قانونی عمل آئین سے ماخوذ موجودہ اور قائم شدہ قانونی طریقہ کار کے مطابق پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت شروع ہو گیا ہے۔

اس کے بعد فوج اور حکومت نے شہدا کی قربانیوں کو یاد کرنے اور ان کے خاندانوں کو عزت دینے کے لیے 25 مئی کو ’یوم تکریم شہدا‘ منانے کا فیصلہ کیا۔

اس سلسلے میں ملک بھر میں قائم یادگار شہدا پر متعدد یادگاری تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔

خیال رہے کہ 26 مئی کو ایک نیوز کانفرنس میں وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا تھا کہ 9 مئی سے متعلق صرف 6 مقدمات میں 33 ملزمان کو فوجی حکام کے حوالے کیا گیا ہے۔

گزشتہ دنوں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا تھا کہ فوج کے قوانین کے تحت مقدمات بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تقاضوں کو پورا کرتے ہیں جو کہ منصفانہ ٹرائل کی بنیاد ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024