• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

چیئرمین پی ٹی آئی نے پارٹی بند گلی میں دھکیل دی، جمہوری نظام کو بچانا ہے، بلاول بھٹو

شائع June 23, 2023
بلاول بھٹو نے کہا 9 مئی جیسے حملوں کی اجازت دے دی گئی تو پھرملک نہیں چل سکے گا — فوٹو: ڈان نیوز
بلاول بھٹو نے کہا 9 مئی جیسے حملوں کی اجازت دے دی گئی تو پھرملک نہیں چل سکے گا — فوٹو: ڈان نیوز

وزیر خارجہ اور چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے سابق وزیر اعظم پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنی انا کی وجہ سے اپنی پارٹی کو بند گلی میں دھکیل دیا، اس کا نقصان اب وہ خود بھگتے لیکن ہم سب پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں کہ اس بند گلی میں ہمارا پورا جمہوری نظام نہ پھنس جائے۔

قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ میں وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، انہوں نے سیلاب متاثرین کے منصوبوں کے بارے میں تقریر کی اور یقین دہانی کرائی کہ وہ منصوبے بجٹ میں ہوں گے، ہم وزیر اعظم شہباز شریف کے بھی شکر گزار ہیں، یہ ان کے اپنے ہی وعدے تھے، جو ہمیں ان شا اللہ تعالیٰ پورے ہوتے ہوئے نظر آر ہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں نوجوانوں کے لیے کھل کے بات کرنا کافی مشکل ہوتا ہے، ہماری ثقافت کی وجہ سے ہمیں بڑوں کا احترام سکھایا جاتا ہے، ہماری سیاست گالم گلوچ، کردار کشی کرنے والی نہیں ہے۔

’شہباز شریف زیادہ پیپلزپارٹی کے وزیر اعظم ہیں‘

ان کا کہنا تھا کہ میری کوشش ہوگی کہ مثبت انداز میں سیاست کی جائے تاکہ ہم اس ملک کے مسائل کے حل کی طرف بڑھ سکیں، مگر ان مسائل کا حل نکالنے کے لیے صحیح نشاندہی بھی ضروری ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ سابق صدر آصف زرداری کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ یاروں کے یار ہیں، ہمارا سیاسی یار پاکستان مسلم لیگ (ن) ہے، اس دائرے میں رہتے ہوئے میں نے بطور پارٹی چیئرمین اپنی ذمہ داری بھی پوری کرنی ہے، شہباز شریف صرف مسلم لیگ (ن) کے وزیر اعظم نہیں، شہباز شریف صاحب شاید زیادہ پیپلزپارٹی کے وزیر اعظم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف جس جذبے سے کام کرتے ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ ان جیسا کام کرتے کسی کو نہیں دیکھا، وزیراعظم ملک کو مسائل سے نکالنے کے لئے دن رات کام کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف جس نیت کے ساتھ کام کرتے ہیں، جو ان کے کام کرنے کی اخلاقیات (ورک ایتھکس) ہے، میں نے اس سے بہتر پہلے نہیں دیکھا، اسی کی ضرورت ہے، اگر ہم نے پاکستان کو مسائل سے نکالنا ہے تو دن رات محنت کرنی ہے، دن رات محنت وزیر اعظم صاحب تو کر رہے ہیں، ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم وزیراعظم کے ہاتھ کو مضبوط کریں۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ ہم بہت شکر گزار ہیں کہ سیلاب کی تعمیر نو کا منصوبہ اب بجٹ میں شامل ہوا ہے، ہمارے لیے بہت مشکل ہوتا، نہ صرف اپنے عوام کو جواب دینا مگر دنیا بھر کو جواب دنیا بھی۔

انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں خود کو اس کے مطابق ڈھالنا شروع کرنا چاہیے، اس کے لیے ہمیں ملک کے مختلف شعبوں میں تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے، اس سے دیگر معاشی فوائد کے علاوہ لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر آئیں گے۔

’اگر عوام سے سچ نہیں بولیں گے تو ان کا اعتماد اٹھ جائے گا‘

ان کا کہنا تھا کہ اگر اس حوالے سے ہم نے دنیا سے کیے اپنے وعدے بجٹ میں پورے نہیں کیے تو دنیا کے سامنے ہماری کوئی ساکھ نہیں رہے گی، ہمیں ملک کو گرین انرجی ریوولوشن کی جانب لے جانے کی ضرورت ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ملک سے باہر اور ملک کے اندر ساکھ کو برقرار رکھنا ضروری ہے، وہ ساکھ اس وقت ہی برقرار رہ سکتی ہے جب ہم اپنے عوام سے سچ بولیں، اگر سچ نہیں بولیں گے تو ان کا اعتماد ہم سے اٹھ جائے گا، اس حکومت کے آنے سے قبل ایک ایسا وزیراعظم موجود تھا جس کی سیاست ہی جھوٹ تھی، اس کا فرض تھا کہ ہر بیان میں جھوٹ بولنا ہے، اس پروپیگنڈے کی حکمت عملی یہ تھی کہ 100 فیصد جھوٹ بولو، اس میں نے 50 فیصد جھوٹ کو لوگ تسلیم کرلیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ان کی اس حکمت عملی کی وجہ سے پورے نظام کو، عالمی سطح پر مالیاتی ادارے کے ساتھ بھی ہمیں دھچکا لگا، اب ہم جھوٹ پر مبنی مقبولیت کی سیاست کی صورتحال پر قابو پالیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا میں بھی ایک سیاست دان اسی طرح کی سیاست کر رہا تھا لیکن جب اس نے اداروں پر حملہ کیا تو ان سب کے خلاف ایکشن ہونا شروع ہوگیا، اس کے فیس بک، ٹوئٹر اکاؤنٹس بند کردیے گئے لیکن ہم تو امریکا سے زیادہ جمہوری لوگ ہیں، ہم نے تو اس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند نہیں کیے، انہوں نے آئین توڑا، ہمارے ادارے پر حملہ کیا، ہم نے کچھ نہیں کیا، ہم نے بہت کچھ برداشت کیا۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ سابق وزیراعظم کی سازش تو ناکام ہوئی لیکن ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا، دنیا میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ کہیں یادگار شہدا کو جلایا گیا ہو، جناح ہاؤس لاہور، جی ایچ کیو پر حملہ کیا گیا، فوجی تنصیبات پر حملہ کیا گیا، اگر برطانیہ میں ایم آئی سکس کے دفتر پر، امریکا میں پینٹاگون پر حملہ کیا جائے تو کیا وہ اس کا خیرمقدم کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ان حملوں پر، اس دہشت گردی پر جو ردعمل آیا ہے وہ قدرتی عمل ہے، لوگ کہتے ہیں کہ یہ جذباتی ردعمل ہے، اگر ہمارے یادگار شہدا پر حملہ کیا جائے گا تو ہم جذباتی ہی ہوں گے، یہ جو غلط معلومات سیاسی بنیادوں پر پھیلائی جارہی ہے، کل تک جو لوگ جمہوریت اور انسانی حقوق پر یقین نہیں رکھتے تھے، جو آئین کو کاغذ کا ٹکڑا سمجھتے تھے، وہ آج اسی جمہوریت اور انسانی حقوق کے پیچھے چھپنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر اس طرح اداروں پر حملوں کی اجازت دے دی گئی تو پھر یہ ملک نہیں چل سکے گا، اس سے ہماری ساکھ بحال نہیں ہوگی، نہ ہی سیاسی استحکام آئے گا اور اگر سیاسی استحکام نہیں آئے گا تو پھر معاشی استحکام اور ترقی بھی نہیں آئے گی۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ ہمیں مہذب اور ذمہ دار سیاسی اپوزیشن کی ضرورت ہے، غیر ذمہ دارانہ اپوزیشن نقصان پہنچاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات کے بعد میں نے کئی مرتبہ کہا اور ان کو پیغام دیا کہ وہ ان واقعات کی مذمت کریں، ان سے اظہار لاتعلقی کریں، معافی مانگیں لیکن ان کا قائد تب سے اپنی ضد پر کھڑا ہوا ہے، اپنی انا کی وجہ سے اس نے اپنی پارٹی کو بند گلی میں دھکیل دیا ہے، وہ نقصان اب وہ بھگتے لیکن ہم سب پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں کہ عمران خان نے اپنی جماعت کے لیے جو اس بند گلی کا بندوبست کیا ہے، اس بند گلی میں ہمارا پورا جمہوری نظام نہ پھنس جائے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ اس بند گلی کا نقصان صرف ان لوگوں تک محدود رہے جو غیر جمہوری پوسٹ فیکٹ سیاست میں ملوث تھے، اس کا نقصان میثاق جمہوریت کے مطابق ہمارے اتفاق رائے کو نہ ہو جو کہ ملک میں سیاسی استحکام برقرار رکھنے کا ایک ہی راستہ ہے، ہمیں معاشی استحکام کے ساتھ سیاسی استحکام کا روڈ میپ بھی پیش کرنا ہے، قوم کے سامنے الیکشن کا روڈ میپ سامنے لانا ضروری ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024