• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

’غیرضروری، گمراہ کن‘، پاکستان نے امریکا بھارت مشترکہ بیان کو سفارتی اصولوں کے منافی قرار دے دیا

شائع June 23, 2023 اپ ڈیٹ June 24, 2023
گزشتہ روز بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی دورہ امریکا کے موقع پر وائٹ ہاؤس میں صدر جو بائیڈن سے ملاقات کی—فوٹو:اے ایف پی
گزشتہ روز بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی دورہ امریکا کے موقع پر وائٹ ہاؤس میں صدر جو بائیڈن سے ملاقات کی—فوٹو:اے ایف پی
وزیر دفاع نے کہا کہ کشمیر میں بدترین ریاستی دہشت گردی اور مذہبی جنونیت کا شکار  بیمار ذہنیت کی حامل بھارتی قیادت پاکستان پر الزام تراشی کر رہی ہے۔—فوٹو:ڈان نیوز
وزیر دفاع نے کہا کہ کشمیر میں بدترین ریاستی دہشت گردی اور مذہبی جنونیت کا شکار بیمار ذہنیت کی حامل بھارتی قیادت پاکستان پر الزام تراشی کر رہی ہے۔—فوٹو:ڈان نیوز

پاکستان نے امریکا بھارت مشترکہ بیان میں پاکستان سے متعلق مخصوص حوالہ کو غیر ضروری، یکطرفہ اور گمراہ کن قرار دیتے ہوئے کہا اسے سفارتی اصولوں کے منافی قرار دے دیا۔

دفتر خارجہ کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے مثال قربانیاں دی ہیں، اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مسلح افواج نے ایک مثال قائم کی ہے، پاکستان کے عوام اس جنگ میں اصل ہیرو ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ عالمی برادری نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کوششوں اور قربانیوں کو بار بار تسلیم کیا ہے، اس نے طویل عرصے سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ دہشت گردی کو مشترکہ اور تعاون پر مبنی اقدامات کے ذریعے شکست دی جا سکتی ہے، نہیں معلوم مشترکہ بیان میں کیے گئے دعوے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بین الاقوامی عزم کو کس طرح مضبوط کر سکتے ہیں۔

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ تعاون پر مبنی جذبہ جو دہشت گردی کی لعنت کو شکست دینے کے لیے انتہائی ضروری ہے، جغرافیائی سیاسی دلچسپیوں کی نذر کر دیا گیا ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ بھارت ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی کے علاوہ غیر قانونی مقبوضہ جموں و کشمیر میں کشمیریوں پر ہونے والے اپنے وحشیانہ جبر اور بھارتی اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک سے توجہ ہٹانے کے لیے دہشتگردی کا استعمال کرتا ہے ، اس طرح پاکستان اور دہشت گردی کے خلاف اس کی جنگ کے بارے میں کسی قسم کے الزامات لگانا بالکل غلط ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ مشترکہ بیان خطے میں کشیدگی اور عدم استحکام کے کلیدی ذرائع کو حل کرنے اور بھارتی غیر قانونی مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین صورتحال کا نوٹس لینے میں ناکام رہا ہے، یہ بین الاقوامی ذمہ داری سے دستبردار ہونے کے مترادف ہے۔

ترجمان نے کہا کہ بھارت کو جدید فوجی ٹیکنالوجیز کی منصوبہ بند منتقلی پر بھی پاکستان کو گہری تشویش ہے، ایسے اقدامات خطے میں فوجی عدم توازن کو بڑھا رہے ہیں اور تزویراتی استحکام کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ اقدامات جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے مقصد کے حصول میں رکاوٹ ہیں، ہم اپنے بین الاقوامی شراکت داروں پر زور دیتے ہیں کہ وہ جنوبی ایشیا میں امن و سلامتی کے مسائل کے بارے میں ایک جامع اور معروضی نقطہ نظر اختیار کریں اور یکطرفہ موقف کی توثیق سے گریز کریں۔

بائیڈن کو ’گجرات کے قصائی‘ کے ساتھ آئندہ ملاقات سے قبل حقائق پر غور کرنا چاہیے، وزیر دفاع

وزیر دفاع خواجہ آصف نے گزشتہ روز بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی صدر جو بائیڈن سے ملاقات کے بعد پاکستان کے خلاف جاری کردہ امریکا بھارت مشترکہ بیان پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر آئندہ جب گجرات کے قصائی سے ملیں تو حقائق پر غور کریں۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئر پر جاری اپنے بیان میں خواجہ آصف نے کہا کہ امریکا بھارت مشترکہ اعلامیے کی ستم ظریفی ہے یہ ایک ایسے شخص کے دورے کے دوران سامنے آئی جس کی سرپرستی میں مسلمانوں کے قتل عام کے باعث امریکا میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی تھی جب کہ وہ گجرات کا وزیراعلیٰ تھا۔

انہوں نے کہا کہ صدر جو بائیڈن جب آئندہ گجرات کے قصائی سے ملاقات کریں تو انہیں ان حقائق پر بھی غور کرنا چاہیے۔

اس کے علاوہ قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے وزیر دفاع نے کہا کہ کشمیر میں بدترین ریاستی دہشت گردی اور مذہبی جنونیت کا شکار بیمار ذہنیت کی حامل بھارتی قیادت پاکستان پر الزام تراشی کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نائن الیون کے بعد امریکا کا حلیف بننے کی وجہ سے دہشت گردی کا شکار ہوا اور آج بھی اس کی قیمت چکا رہا ہے تاہم اس جنگ میں پاکستان کے کردار کو تسلیم نہیں کیا گیا، ہمیں اپنی جغرافیائی حیثیت کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کرنا ہو گا۔

خواجہ آصف نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم امریکی صدر جوبائیڈن کی دعوت پر امریکا میں ہیں، وہاں پر انہوں نے ایک مرتبہ پھر بھارت کا روایتی رویہ اپناتے ہوئے پاکستان کو دہشت گرد قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ مودی جب گجرات کے وزیراعلیٰ تھے تو ان کی سرپرستی میں وہاں کے مسلمانوں کو زندہ جلایا گیا، خواتین کی عصمت دری کی گئی، جس پر اس وقت امریکہ نے ان پر ویزا کی پابندیاں عائد کی تھیں۔

وزیر دفاع نے کہا کہ آج ایک مرتبہ پھر بھارت میں وہی سلسلہ جاری ہے، وہاں مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتیں مودی کی دہشت گردی کا ہدف بنی ہوئی ہیں، دہلی کی سرپرستی میں ان پر ظلم ڈھائے جا رہے ہیں، کشمیر میں کئی سالوں سے غیر اعلانیہ کرفیو نافذ ہے، وہاں کی قیادت کئی دہائیوں سے قید میں ہے، مودی اور ان کے انتہا پسند مذہبی جنونیوں کی بدترین ریاستی دہشت گردی جاری ہے، یہ بیمار ذہنیت میں مبتلا ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے 40 سال میں دو افغان جنگوں میں امریکا کا ساتھ دیا اور اس میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیا، یہ ایک ایسی جنگ تھی جو ہماری نہیں تھی، ہم نے خود دہشت گردی کو دعوت دی، امریکا کئی سمندر پار ہونے کی وجہ سے مکمل محفوظ ہے، ان کے لئے جنگیں کمرشل سرمایہ کاری کے مترادف ہیں، آج بھی یورپ میں ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس اس سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔

وزیر دفاع نے کہا کہ نائن الیون کے بعد ہم اس کے اتحادی بنے، آج پاکستان کو جس دہشت گردی کا سامنا ہے، یہ اسی جنگ کا شاخسانہ ہے جو ہماری تھی ہی نہیں، آج بھی پاکستانی قوم امریکا کی حلیف ہونے کی قیمت ادا کر رہی ہے جب کہ اس کردار کو تسلیم نہیں کیا گیا۔

وزیر دفاع نے کہا کہ گزشتہ روز امریکی صدر اور بھارتی وزیراعظم کی مشترکہ پریس کانفرنس ان حکمرانوں کے لئے باعث شرم ہے جنہوں نے اپنے دور اقتدار میں پاکستانی ان کے ہاتھ بیچے، انہوں نے کہا کہ اس مشترکہ پریس کانفرنس میں پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا گیا۔

وزیر دفاع نے کہا کہ پاکستان کو اپنی جغرافیائی حیثیت کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنا چاہیے، اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی دورہ امریکا کے موقع پر وائٹ ہاؤس میں صدر جو بائیڈن سے ملاقات ہوئی جس کے بعد دونوں سربراہان مملکت کی جانب سے جاری کردہ ایک مشترکہ بیان میں پاکستان سے دہشت گردوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

مشترکہ بیان میں کالعدم لشکر طیبہ اور کالعدم جیش محمد جیسے انتہا پسند گروہوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک کے سربراہان نے سرحد پار دہشت گردی اور دہشت گرد پراکسیز کے استعمال کی شدید مذمت کی اور پاکستان سے یہ یقینی بنانے کے لیے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا کہ اس کے زیرِ انتظام کوئی بھی علاقہ دہشت گرد حملوں کے لیے استعمال نہ ہو۔

بیان میں پاکستان سے 2008 کے ممبئی حملوں سمیت دہشت گرد حملوں کے ذمہ داروں کو سزا دینے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024