• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی دبئی میں ملاقات، انتخابات کی تاریخ سمیت اہم امور پر تبادلہ خیال

نواز شریف اور آصف علی زرداری نے گزشتہ روز ملاقات کی — فائل فوٹو: ڈان نیوز/ٹوئٹر
نواز شریف اور آصف علی زرداری نے گزشتہ روز ملاقات کی — فائل فوٹو: ڈان نیوز/ٹوئٹر

مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے گزشتہ روز دبئی میں ملاقات کی، اطلاعات زیر گردش ہیں کہ اتحادی جماعتیں ملک میں اگلے عام انتخابات کا وقت اور آئندہ سیٹ اَپ میں اپنا اپنا حصہ طے کرنے کے حوالے سے مشاورت کر رہی ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات میں دونوں جماعتوں کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے تفصیلی غور کے بعد اگلے عام انتخابات کے حوالے سے پیدا ہونے والی بےیقینی جلد ختم ہو سکتی ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ نواز شریف اور آصف علی زرداری نے گزشتہ روز کی سہ پہر کئی اہم امور پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے ملاقات کی، ان میں نگران سیٹ اَپ کے لیے ناموں کو حتمی شکل دینا اور یہ فیصلہ کرنا بھی شامل تھا کہ اگر اگلے عام انتخابات میں دونوں جماعتوں نے فتح حاصل کرلی تو کس کے حصے میں کون کون سے اہم عہدے آئیں گے۔

اندرونی ذرائع نے بتایا کہ یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ دونوں جماعتوں کے بڑے، یعنی نواز شریف اور آصف زرداری ان ایشوز پر براہ راست بات چیت کریں گے اور نچلی سطح پر ان امور پر طویل بحث سے گریز کیا جائے گا کیونکہ وہ وقت کا ضیاع ہوگا۔

علاوہ ازیں 2 سرکردہ قومی اداروں، نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) اور پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) میں اعلیٰ تعیناتیوں کا تنازع بھی زیرِبحث آئے گا۔

نواز شریف کی بیٹی مریم نواز اور آصف زرداری کے بیٹے بلاول بھٹو پہلے ہی دبئی میں موجود ہیں، امکان ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف بھی ملاقاتوں کا حصہ بننے کے لیے وہاں پہنچیں گے۔

مسلم لیگ (ن) کے اندرونی ذرائع نے بتایا کہ نواز شریف اور آصف زرداری کی ملاقات کا بنیادی ایجنڈا اکتوبر یا اس کے بعد ہونے والے انتخابات تھے، اگر انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہوتے ہیں تو مرکز میں نگران سیٹ اپ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی مرضی سے مولانا فضل الرحمٰن کو آن بورڈ لے کر منتخب کیا جائے گا۔

پارٹی کے سینئر رہنما نے کہا کہ دونوں قائدین نے پاکستان کو درپیش مجموعی اقتصادی چیلنجز اور آئی ایم ایف معاہدے کے حوالے سے امکانات پر بھی تبادلہ خیال کیا۔

گزشتہ روز دونوں فریقین کے درمیان پہلی ملاقات ہوئی، امکان ہے کہ ملاقاتوں کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک 3 بڑے معاملات پر اتفاق رائے نہیں ہو جاتا، ان میں عام انتخابات کی تاریخ اور نگران سیٹ اَپ کے علاوہ یہ فیصلہ بھی شامل ہے کہ دونوں جماعتیں آئندہ عام انتخابات میں علیحدہ علیحدہ طور پر میدان میں اتریں گی یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کریں گی۔

پیپلزپارٹی کے ایک سینئر رہنما نے کہا کہ آصف زرداری اپنے بیٹے کو اگلا وزیر اعظم دیکھنا چاہتے ہیں، اس لیے شاید دونوں رہنما اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات کے حوالے سے ایک پیج پر نہ ہوں۔

انہوں نے کہا کہ 9 مئی سے پہلے پی ٹی آئی کے خلاف حکمت عملی کے حوالے سے آصف زرداری اور نواز شریف کے درمیان مکمل اتفاق تھا لیکن اب بظاہر پی ڈی ایم کی نظر میں عمران خان آئندہ انتخابات سے جڑے منظرنامے میں غیر متعلق ہوگئے ہیں اس لیے اب دونوں فریق بہت احتیاط سے اپنے اپنے کارڈز کھیل رہے ہیں تاکہ مستقبل کے سیٹ اَپ میں زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کرسکیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے مستقبل پر بھی بات چیت کے علاوہ اس سوال کا بھی جواب ڈھونڈا جائے گا کہ پی ٹی آئی کو آئندہ انتخابات لڑنے کا موقع دیا جائے یا اسے مکمل طور پر میدان سے باہر کردیا جائے۔

دریں اثنا پیپلزپارٹی کے ایک اور رہنما نے بتایا کہ دونوں جماعتوں کے رہنما دبئی میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ عید منائیں گے، اس دوران انہیں یہ مسائل حل کرنے کے لیے کافی وقت ملے گا، متعدد ملاقاتیں ہوں گی اور بلاول بھٹو اور مریم نواز بھی وہاں موجود ہیں، انہیں بھی آن بورڈ لیا جائے گا، ان ملاقاتوں میں جو بھی فیصلہ یا تجویز پیش کی جائے گی اسے حتمی سمجھا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ایک اور نکتہ جس پر تاحال باہمی اتفاق نہیں ہوا لیکن امکان ہے کہ آصف زرداری اس معاملے کو زیر بحث لائیں گے وہ اگلے عام انتخابات میں پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہے، وہ یقینی طور پر یہ چاہیں گے کہ مسلم لیگ (ن) پنجاب کے کچھ حلقوں میں پیپلزپارٹی کے چند بڑے ناموں کی حمایت پر غور کرے، ہمیں نہیں معلوم کہ اس کے بدلے میں وہ (آصف زرداری) میاں صاحب کو کیا پیشکش کریں گے۔

رہنما پیپلزپارٹی نے ایک ہی وقت میں ملک میں ہونے والے متعدد واقعات کا بھی حوالہ دیا جن کے پیش نظر حکومتی قیادت کو یہ ضرورت پیش آئی کہ کوئی غلط تاثر پیدا کیے بغیر مربوط فیصلے کیے جائیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ دونوں جماعتوں کے قائدین نے حکمران اتحاد کے درمیان کسی بھی تنازع، اختلاف یا جھگڑے کے تاثر سے بچنے کے لیے ان معاملات کو اٹھانے اور حل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ایک رہنما نے کہا کہ جہانگیر ترین کی ’کنگز پارٹی‘ استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات پر بھی دونوں جماعتیں گہری نظر رکھیں گی۔

ان ملاقاتوں کے حوالے سے میڈیا پر چہ مگوئیاں جاری رہیں تاہم مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی، دونوں کے میڈیا ونگز اس حوالے سے خاموش رہے۔

جے یو آئی (ف) کی جانب سے بھی اس بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی کہ سربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمٰن اہم مذاکرات میں شرکت کے لیے دبئی کیوں نہیں جا رہے، تاہم یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اگر وہ دبئی نہ بھی جائیں تو بھی یہ امکان موجود ہے کہ وہ ویڈیو لنک کے ذریعے ان ملاقاتوں کا حصہ بنیں گے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024