امریکی اتحادیوں کی یوکرین کو کلسٹر بم فراہم کرنے کی مخالفت
امریکا کے روایتی اتحادیوں نے بائیڈن انتظامیہ کے یوکرین کو کلسٹر بم فراہم کرنے کے فیصلے کی مخالفت کی ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق یوکرین کے سب سے زیادہ حمایتی سمجھے جانے والے ممالک کینیڈا اور برطانیہ نے بھی اس فیصلے کی مخالفت کی ہے۔
اوٹاوا نے ایک بیان میں متنازع ہتھیاروں پر پابندی کے اوسلو معاہدے کی پاسداری کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ’کینیڈا، کلسٹر گولہ بارود کے استعمال کے خلاف ہے جو واشنگٹن نے قابض روسی افواج کے خلاف جوابی کارروائی کے لیے یوکرین کو دینے کا وعدہ کیا ہے‘۔
حکومت نے بیان میں کہا کہ ’کینیڈا، کنونشن کی مکمل طور پر تعمیل کرتا ہے اور ہم کنونشن کے تحت اپنی ذمہ داری کو سنجیدگی سے لیتے ہیں کہ اس کو عالمی سطح پر اپنانے کی حوصلہ افزائی کی جائے‘۔
برطانیہ کے وزیر اعظم رشی سوناک نے بھی کہا کہ برطانیہ، اس کنونشن کا حصہ ہے جو کلسٹر گولہ بارود کے استعمال کی ’حوصلہ شکنی‘ کرتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم روس کے غیر قانونی اور بلااشتعال حملے کے خلاف یوکرین کی حمایت کے لیے اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے، ہم نے بھاری جنگی ٹینک اور حال ہی میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیار فراہم کرکے ایسا کیا ہے اور امید ہے کہ تمام ممالک یوکرین کی حمایت جاری رکھیں گے۔
رشی سوناک نے کہا کہ ’روس کی بربریت کے عمل سے لاکھوں لوگوں کو ناقابل بیان تکلیف پہنچ رہی ہے اور یہ درست ہے کہ ہم اجتماعی طور پر اس کے ساتھ کھڑے ہیں‘۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق 2008 کے اوسلو کنونشن پر دستخط کرنے والے جرمنی نے کہا کہ اگرچہ وہ یوکرین کو ایسے ہتھیار فراہم نہیں کرے گا، لیکن یہ یقینی ہے کہ امریکا اس فیصلے کی حساسیت کو سمجھتا ہے اور اس نے اسے ہلکا نہیں لیا۔
دوسری جانب یوکرین کے وزیر دفاع اولیکسی ریزنیکوف نے امریکی فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے یوکرین کی سرزمین کو آزاد کرانے میں مدد ملے گی، لیکن انہوں نے وعدہ کیا کہ اسلحہ روس میں استعمال نہیں کیا جائے گا۔
روس خود یوکرین میں کلسٹر بم استعمال کرتا ہے لیکن دنیا کے کئی حصوں میں ان پر پابندی عائد ہے۔
مجموعی طور پر 123 ممالک نے 2008 کے اوسلو کنونشن پر دستخط کیے ہیں جس میں کلسٹر گولہ بارود کی پیداوار، ذخیرہ کرنے، فروخت کرنے اور استعمال کرنے پر پابندی ہے تاہم روس، یوکرین اور امریکا دستخط کنندگان میں شامل نہیں ہیں۔
انسانی ہمدردی کے گروپوں نے کلسٹر گولہ بارود کی فراہمی کے امریکی فیصلے کی شدید مذمت کی ہے، جو آنے والے برسوں تک عام شہریوں کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
دریں اثنا یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے یوکرین کی نیٹو میں شمولیت کے لیے ترکیہ کی اہم حمایت حاصل کرلی۔
ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ ’یوکرین، نیٹو کی رکنیت کا مستحق ہے‘ لیکن انہوں نے یہ بھی زور دیا کہ دونوں فریقین کو امن مذاکرات کی طرف واپس جانا چاہیے۔