• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

بے نظیر بھٹو کے مجسمے اور لباس کے پیچھے کی کہانی

شائع July 31, 2023
— فوٹو: دفتر خارجہ
— فوٹو: دفتر خارجہ

اسلامی دنیا کی پہلی منتخب خاتون وزیر اعظم شہید بے نظیر بھٹو کو بہادر سیاستدان کے ساتھ ساتھ پاکستان کی ایک آئیکون کے طور پر بھی جانا جاتا ہے، ان کی شخصیت کی عکاسی ان کے لباس کے انتخاب سے بھی ہوتی تھی، وہ ہمیشہ سے ہی بہت سادہ اور نفیس لباس کا انتخاب کرتی تھیں۔

گزشتہ روز ان کے مجسمے کی دبئی کے مادام تساؤ میوزیم میں نقاب کشائی کی گئی تھی، دبئی کے مادام تساؤ میوزیم میں بے نظیر بھٹو کا مجسمہ کسی پاکستانی شخصیت کا پہلا مجسمہ ہے۔

یہ مجسمہ مادام تساؤ میوزیم میں پہلی بار 1989 میں تیار کیا گیا جسے ابتدائی دور میں لندن میں ہی رکھا گیا اور اس کی نقاب کشائی کے لیے اتوار کو لندن سے دبئی منتقل کیا گیا تھا۔

بے نظیر کے مجسمے کو پہنایا گیا لباس بے نظیر نے خود پہلی بار اس وقت پہنا جب انہوں نے 2 دسمبر 1988 کو وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا تھا، یہ وہ لمحہ تھا جب انہوں نے پاکستان ہی نہیں بلکہ اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزریر اعظم بن کر تاریخ رقم کی تھی۔

فوٹو: ٹوئٹر
فوٹو: ٹوئٹر

بے نظیر نے اس وقت سبز ریشمی شلوار اور قمیض کا انتخاب کیا اور ساتھ میں انہوں نے اپنے منفرد انداز میں سفید دوپٹہ اوڑھا تھا، جس میں وہ خوبصورت دکھائی دے رہی تھیں۔

یہ لباس ڈیزائنر ماہین خان نے تیار کیا تھا، جو متعدد مواقع پر (بالخصوص اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر) اظہار خیال کرچکی ہیں۔

انہوں نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر تفصیلاً بتایا کہ بے نظیر کا یہ لباس کس طرح تیار کیا گیا، بے نظیر نے کس طرح صرف اونچی پفڈ آستین رکھنے پر اصرار کیا اور کس طرح سبز ریشمی قمیض کو ایک ململ سفید دوپٹہ کے ساتھ میچ کیا، جو پاکستان کے پرچم کے رنگوں کی عکاسی کرتا ہے۔

دبئی کے میوزیم مادام تساؤ کی جنرل منیجر سناز کولسرود نے خلیج ٹائمز کو بتایا کہ ’1989 میں جب یہ مجسمہ لندن میں ڈسپلے کیا گیا تو اس وقت یہ بے نظیر کو پیش کیا گیا تھا، انہوں نے اس وقت فنکاروں کے ساتھ مل کر اپنے لباس کا انتخاب کیا تھا۔‘

—فوٹو: دفتر خارجہ
—فوٹو: دفتر خارجہ

انہوں نے بتایا کہ ’ہم خوش ہیں کہ ہم نے بے نظیر کے مومی مجسمے کو اس میوزیم میں رکھا ہے، اس کو بنانے میں اضافی کام اور محنت کی گئی ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ مومی مجسمے کو بنانے کے لیے 6 سے 8 ماہ لگتے ہیں، لیکن بے نظیر کے مجسمے میں سر سے لے کر پیر تک ہر باریک چیز کو بہت محنت سے بنایا گیا ہے، بالوں کو سر کے ساتھ جوڑنے کے لیے بھی محنت کی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک مومی مجسمے کو بنانے کے لیے تقریباً 7 لاکھ درہم خرچ ہوتے ہیں۔

بے نظیر بھٹو کے صاحبزادے اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی دیگر معززین اور سفارت کاروں کے ہمراہ مجسمے کی نقاب کشائی میں شرکت کی۔

انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے یہ مجسمہ پہلی بار مادام تساؤ لندن میں دیکھا تھا، دبئی ہمارے دلوں میں ایک خاص مقام رکھتا ہے، کیونکہ میری والدہ اور خاندان نے یہاں تقریباً 10 سال جلاوطنی میں گزارے تھے، میں نے اپنی ابتدائی اور ثانوی تعلیم متحدہ عرب امارات میں حاصل کی، مجھے اس شہر اور ملک سے گہرا لگاؤ ​​ہے۔‘

—فوٹو: دفتر خارجہ
—فوٹو: دفتر خارجہ

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024