• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

آفیشل سیکریٹ ایکٹ سینیٹ میں پیش، وارنٹ کے بغیر گرفتاری کی شق واپس لے لی گئی

شائع August 6, 2023
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ بل میں کچھ الفاظ پر اعتراضات سامنے آئے تھے جنہیں تبدیل کر دیا گیا ہے — فوٹو: ڈان نیوز
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ بل میں کچھ الفاظ پر اعتراضات سامنے آئے تھے جنہیں تبدیل کر دیا گیا ہے — فوٹو: ڈان نیوز

آفیشل سیکریٹ ایکٹ ترمیمی بل 2023 سینیٹ میں پیش کردیا گیا جس میں سے حکومت نے انٹیلی جنس ایجنسیوں کی وارنٹ کے بغیر گرفتاری کی شق واپس لے لی۔

سینیٹ اجلاس کے دوران وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے وزیر داخلہ کی جانب سے بل ایوان میں پیش کیا، انہوں نے کہا کہ اعتراض 2 باتوں پر تھا کہ گرفتاری کا اختیار بغیر وارنٹ کے ایجنسیوں کو دیا گیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ اب یہ اعتراض ختم کر دیا گیا ہے، بغیر وارنٹ کے گرفتاری والی شق واپس لے لی گئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بل میں کچھ الفاظ پر اعتراضات سامنے آئے تھے، اُن کو بھی تبدیل کر دیا گیا ہے۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ہم نے جو قانون بھی رکھا ہے اس کا مکمل جائزہ لیا گیا ہے، اندھا دھند والے الزام سے بری کیا جائے، دنیا جہاں میں یہ اختیار ایجنسیوں کے پاس ہے لیکن ہم نے اس کو کاٹ دیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم کئی برسوں سے دہشت گردی کا شکار ہیں، جو جوان شہادتیں دے رہے ہیں ہمیں ان کی طرف بھی دیکھنا چاہیے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پہلے سیکیورٹی ایجنسیوں کے لوگوں کی تصاویر لگا کر کہا جاتا تھا یہ لوگ جہاں نظر آئیں انہیں مار دیں، اس کے بعد اب یہ تجویز آئی کہ کم سے کم کوئی تو قانون ہو جو ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی ہو۔

اجلاس کے دوران سینیٹر طاہر بزنجو نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی اس لیے مخالفت کی تھی کیونکہ بل آئین کی بنیادی حقوق کے خلاف تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس بل میں سے بغیر وارنٹ گرفتاری کا اعتراض ختم کردیا گیا ہے، اب ہمیں اس بل پر اعتراض نہیں ہے۔

حکومت نے جاتے جاتے ایک اور بم بلوچستان پر گرادیا، سینیٹر کامران مرتضیٰ

قبل ازیں سینیٹر کامران مرتضیٰ نے سینیٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس حکومت نے جاتے جاتے ایک اور بم بلوچستان پر گرا دیا اور صوبے کی آبادی 64 لاکھ کم کردی۔

انہوں نے کہا کہ ریاست کا بہت شکریہ جس سے ہماری 7، 8 سیٹیں بڑھنا برداشت نہ ہوا، یہ معاملہ بہت تکلیف دہ ہے، اس سے بلوچستان میں کوئی اچھا پیغام نہیں گیا، وہاں پہلے ہی بہت مسائل ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم وہاں کے لوگوں کو پارلیمنٹ کی طرف لانا چاہتے ہیں لیکن ہمیں یہ 16 سیٹوں کی جمہوریت منظور نہیں، 64 لاکھ آبادی کم کرکے سیٹیں کم کردی ہیں، دریں اثنا سینیٹر کامران مرتضی نے ایوان سے ٹوکن واک آؤٹ کردیا۔

اس پر وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے ہونے والے اجلاس میں مولانا اسعد محمود موجود تھے، مردم شماری والی ٹیم نے 2 گھنٹے بریفنگ دی تھی جس کے بعد متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ آبادی میں اضافے کی سب سے زیادہ شرح بلوچستان میں ہی ریکارڈ کی گئی ہے جو کہ 3.20 فیصد ہے، بلوچستان کی آبادی بڑھی اور باضابطہ نتائج کے مطابق صوبے کی آبادی ڈیڑھ کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔

وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں بلوچستان کے وزیراعلیٰ اور جے یو آئی (ف) کے مولانا اسعد محمود بھی موجود تھے۔

انہوں نے کہا کہ مردم شماری کی تمام تفصیلات صوبوں کو بھجوا دی گئی ہیں، پورا ریکارڈ دیکھ کر مردم شماری ہوئی ہے، ڈیجیٹل مردم شماری کا فیصلہ گزشتہ حکومت کرکے گئی ہے، یہ پہلی ڈیجیٹل مردم شماری کی گئی جس پر قوم کا 34 ارب روپے خرچ ہوا ہے۔

سینیٹر رضا ربانی نے سینیٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سی سی آئی کے فیصلے کے بعد انتخابات 4، 5 ماہ آگے چلے جائیں گے، انتخابات آگے گئے تو یہ آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ سی سی آئی کا اجلاس کیسے ہوا میں اس میں نہیں جانا چاہتا، لیکن انتخابات 60 یا 90 روز میں ہونے تھے وہ اب شاید ملتوی ہوجائیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ عمل آئین کی خلاف ورزی ہوگی، الیکشن کمیشن کو فوری طور پر سامنے آکر واضح کرنا چاہیے کہ حلقہ بندیوں میں کتنا وقت لگے گا۔

اعظم نذیر تارڑ نے اس پر بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے حلقہ بندیوں کا فیصلہ الیکشن کمیشن پر چھوڑا ہے، مردم شماری کی منظوری کی 2 وجوہات تھیں، 2017 کی مردم شماری پر اکثر جماعتوں کو تحفظات تھے اور ایک معاہدہ ہوا تھا کہ آئندہ مردم شماری ڈیجیٹل ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو باضابطہ طور پر ایک بیان دینا چاہیے کہ وہ کس طرح یہ اقدامات اٹھائیں گے، حکومت میں شامل تمام جماعتوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ انتخابات آئین کے مطابق جلد از جلد ہونے چاہئیں۔

عمران خان کی گرفتاری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو بڑے سادے سے کیس میں سزا ہوئی ہے، عمران خان نے توشہ خانہ کے تحائف الیکشن کمیشن سے چھپائے ہوئے تھے اور جھوٹا حلف نامہ جمع کروایا کہ یہ تفصیلات درست ہیں۔

انہوں نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی 37 مرتبہ غیرحاضر رہے، اُن کے پاس ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیل کا حق ہے، یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کو تو عدالت عظمیٰ نے گھر بھیجا تھا، ان کے پاس تو اپیل کا حق بھی نہیں تھا۔

سینیٹر مشتاق نے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم جس تیزی سے اندھا دھند قانون سازی کر رہے ہیں اس میں بل کمیٹیوں تک جانے کی نوبت ہی نہیں آتی اور نہ ہی ہمیں غور یا ترامیم کا موقع ملتا ہے۔

سینیٹ اجلاس کے دوران تحریک انصاف نے عمران خان کی گرفتاری پر کالی پٹیاں باندھ کر احتجاج کیا، سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے حکومت پر سخت تنقید کی، اس دوران سینیٹ میں ’عمران خان زندہ آباد‘ کے نعرے بھی لگائے گئے۔

سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے اس پر اس ایوان کو خاموش نہیں بیٹھنا چاہیے، کل کے فیصلے کی مذمت کرتے ہیں، بعد ازاں عمران خان کی گرفتاری کے خلاف تحریک انصاف کے اراکین نے ایوان سے واک آؤٹ کر دیا۔

آفیشل سیکریٹ ایکٹ

یاد رہے کہ رواں ماہ یکم اگست کو قومی اسمبلی سے آفیشل سیکریٹ ایکٹ ترمیمی بل 2023 منظور کیا گیا تھا، جس کے تحت سیکیورٹی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کو بغیر وارنٹ کے چھاپہ مارنے اور دستاویزات قبضے میں لینے کا اختیار دیا گیا تھا۔

قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے آفیشل سیکریٹ ایکٹ 1923 بل میں کہا گیا تھا کہ ذیلی شق 2 اے کے تحت خفیہ ایجنسیوں کو بغیر وارنٹ چھاپہ مارنے اور دستاویزات قبضے میں لینے کا اختیار ہو گا اور ملک دشمن سرگرمی میں ملوث کسی شخص سے متعلق معلومات رکھنے پر بھی سیکریٹ ایکٹ کے تحت کارروائی ہو گی۔

بل کے سیکشن 6 اے میں تجویز دی گئی کہ پاکستان کے مفاد، یا دفاع، امن عامہ یا کسی خفیہ عہدیدار اور کسی بھی خفیہ ایجنسی کے رکن، خبر دینے والے یا ذرائع کی شناخت افشا کرنا قابل تعزیر جرم ہوگا۔

قومی اسمبلی سے منظور ترمیمی بل میں کہا گیا کہ ترمیمی بل کے ذریعے خفیہ دستاویزات، اسلحہ، خفیہ ایجنسی کی تعریف بھی بدل دی گئی ہے۔

بل میں کہا گیا کہ مسلح افواج کی جانب سے جنگی مشقیں، تربیت، ریسرچ یا ترقی، فوجیوں کی نقل و حرکت کے لیے زیر قبضہ جگہ میں مداخلت ممنوع ہوگی، اسی طرح کوئی جگہ، زمین، عمارت یا جائیداد جو پاکستان میں یا دنیا میں کہیں بھی موجود ہو، یا محفوظ معلومات تک رسائی اور اس کے استعمال کی قانونی طور پر ممانعت ہوگی۔

آفیشل سیکریٹ ایکٹ ترمیمی بل کے تحت مسلح افواج کی تنصیبات، مشقوں کی جگہ، تحقیقی مراکز پر حملہ بھی قابل تعزیر جرم تصور ہوگا اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی شقوں کی خلاف ورزی پر سزائیں اور جرمانے بھی بڑھا دیے گئے۔

ترمیمی بل میں کہا گیا کہ دستاویز میں ڈیجیٹل آلات، فائلز، کمپیوٹرز، پلانز، نقشے، ڈرائننگ کی رازداری افشا کرنا بھی جرم ہوگا، عسکری نوعیت کی خرید و فروخت سے متعلق معاہدوں کی تفصیلات افشا کرنا بھی قابل تعزیر جرم ہوگا۔

بل میں کہا گیا کہ براہ راست، ارادتاً یا غیراداری طور پر پاکستان یا ملک سے باہر غیر ملکی طاقت، ایجنٹ یا غیرریاستی گروہ کے لیے کام کرنا، ملک یا بیرون ملک غیر ملکی ایجنٹ سے ملنا، گھر جانا یا بات کرنا بھی جرم ہوگا۔

ترمیمی بل کے مطابق اس ایکٹ کے تحت مقدمات خصوصی عدالتوں میں سننے کی منظوری ہوگی اور مقدمات کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحققیاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی جائے گی، جو 30 روز میں اپنی تحقیقات مکمل کرے گی۔

بل میں کہا گیا کہ سیکشن 12 بی کے تحت تفتیش کے دوران جمع کیا گیا مواد بشمول الیکٹرونک ڈیوائسز، ڈیٹا، انفارمیشن، ڈاکیومنٹس یا اسی طرح کا دیگر مواد جو جے آئی ٹی کو اس سیکشن کے تحت تفتیش میں سہولت فراہم کر رہا ہو۔

قومی سمبلی سے منظور ترمیمی بل میں کہا گیا کہ غیر ملکی ایجنٹ سے تعلق کی بنیاد پر 3 سال قید یا 10 لاکھ روپے جرمانہ ہو گا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024