• KHI: Zuhr 12:37pm Asr 5:19pm
  • LHR: Zuhr 12:07pm Asr 5:03pm
  • ISB: Zuhr 12:13pm Asr 5:12pm
  • KHI: Zuhr 12:37pm Asr 5:19pm
  • LHR: Zuhr 12:07pm Asr 5:03pm
  • ISB: Zuhr 12:13pm Asr 5:12pm

انتخابات میں تاخیر ہوئی تو پیپلزپارٹی کو ’اسٹینڈ‘ لینا پڑے گا، خورشید شاہ

شائع August 6, 2023
وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ ناممکن ہے کہ سید خورشید شاہ پیپلز پارٹی سے ہوں اور اس کے حق میں کام نہ کرے — فوٹو: ڈان نیوز
وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ ناممکن ہے کہ سید خورشید شاہ پیپلز پارٹی سے ہوں اور اس کے حق میں کام نہ کرے — فوٹو: ڈان نیوز

وفاقی وزیر برائے آبی وسائل سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ عام انتخابات میں تاخیر ہوئی تو اس معاملے پر پیپلز پارٹی کو ’اسٹینڈ‘ لینا پڑے گا۔

حکومت نے اعلان کیا ہے کہ 9 اگست کو اسمبلیاں تحلیل کر دی جائیں گی، اس صورت میں قومی اسمبلی اپنی مدت کی تکمیل سے قبل تحلیل ہو جائے گی، اس کا مطلب ہے کہ عام انتخابات اس کی تحلیل کے 90 روز کے اندر ہونے ہیں۔

آئین میں کہا گیا ہے کہ اگر اسمبلی اپنی مدت پوری کرتی ہے تو انتخابات 60 روز میں کرائے جائیں گے، لیکن اس کے قبل از وقت تحلیل ہونے کی صورت میں یہ مدت بڑھ کر 90 روز تک ہو جاتی ہے۔

گزشتہ روز مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) نے ساتویں مردم شماری کی متفقہ طور پر منظوری دے دی تھی، جس کے بعد رواں برس شیڈول انتخابات کے 6 ماہ تک التوا کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔

قبل ازیں وزیراعظم شہباز شریف نے رواں ہفتے کے اوائل میں دیے گئے ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ انتخابات نئی مردم شماری کی بنیاد پر ہوں گے، جب کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان پہلے ہی آبادی کے نئے اعداد و شمار کی بنیاد پر انتخابات کرانے سے معذوری کا اظہار کر چکا ہے کیونکہ اسے نئی آبادی کی بنیاد پر انتخابی حلقوں کی از سر نو حد بندی کرنی ہوگی۔

اگرچہ پاکستان پیپلز پارٹی سمیت حکمران اتحاد میں شامل کچھ رہنماؤں نے اس سے قبل نئی مردم شماری کے تحت آئندہ عام انتخابات کے انعقاد کی مخالفت کی تھی، تاہم سی سی آئی کے اجلاس میں پی پی پی کی خاموشی نے کئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔

ہفتے کے روز نشر ہونے والے ڈان نیوز کے پروگرام ’دوسرا رخ‘ میں اینکر نادر گرمانی کو دیے گئے انٹرویو میں خورشید شاہ سے جب اس بارے میں استفسار کیا گیا کہ وہ کب ملک میں انتخابات ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، تو وفاقی وزیر نے کہا کہ وہ ابتدا میں سمجھتے تھے کہ انتخابات آئین کے مطابق وقت پر ہوں گے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ 2023 کی مردم شماری کے مطابق انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے حالیہ بیانات کے بعد انہیں تحفظات ہیں، یہ انٹرویو 2023 کی مردم شماری کے نتائج کی سی سی آئی کی جانب سے منظوری دیے جانے سے قبل ریکارڈ کیا گیا تھا۔

وفاقی وزیر آبی وسائل نے نوٹ کیا کہ آئین میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ مردم شماری کے بعد حد بندی ہونی ہے، نئی حد بندیوں کے عمل میں چار ماہ لگیں گے، اس لیے مجھے 12 یا 13 نومبر کو انتخابات ہوتے نظر نہیں آرہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر انتخابات میں تاخیر ہوئی تو پیپلزپارٹی ایک مؤقف اپنائے گی۔

نگراں وزیر اعظم کے تقرر میں پیش رفت کے بارے میں پوچھے جانے پر خورشید شاہ نے کہا کہ آئین پر عمل کرنا ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ عام طور پر نگران وزیراعظم کے نام کے انتخاب کے لیے کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں، تقریباً تمام جماعتیں کمیٹی میں شامل ہیں، کمیٹیوں نے اپنی سطح پر پانچ ناموں کو حتمی شکل دی ہے، قیادت کی سطح پر ان ناموں کو حتمی شکل نہیں دی۔

اس سوال پر کہ کیا سابق وزیر خزانہ حفیظ شیخ کا نام بھی عہدے کے لیے زیر غور ہے، تو وفاقی وزیر نے جواب دیا کہ حکمران اتحاد کوئی ایسا شخص نہیں لگانا چاہے گا جو بریف کیس لائے اور پھر اسے اٹھا کر واپس چلا جائے، ساتھ ہی انہوں نے زور دے کر کہا کہ وہ حفیظ شیخ کا احترام کرتے ہیں۔

اپنی، وزیر خزانہ اسحٰق ڈار اور سینیٹر رضا ربانی کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھنے والے فعال سیاستدان کو بطور نگران وزیراعظم تعینات کیا گیا تو ’دھاندلی‘ کا خدشہ ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ناممکن ہے کہ سید خورشید شاہ پیپلز پارٹی سے ہوں اور اس کے حق میں کام نہ کرے، میں لازمی اپنی پارٹی کی حمایت کروں گا، میں کھلے عام یہ کہہ رہا ہوں، یہ قدرتی بات ہے جسے تسلیم کیا جانا چاہیے۔

کارٹون

کارٹون : 5 جولائی 2024
کارٹون : 4 جولائی 2024