• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

قومی اسمبلی کی تحلیل کا کیا مطلب ہے اور اگلا مرحلہ کیا ہے؟

پاکستان کے آئین کے مطابق اگر قومی اسمبلی اپنی مدت مکمل کرکے تحلیل ہوتی ہے تو انتخابات دو ماہ کے اندر کرانا لازمی ہیں۔
شائع August 9, 2023

ملکی تاریخ کی پندرہویں قومی اسمبلی کی مدت 12 اور 13 اگست کی رات بارہ بجے مکمل ہوگی تاہم نئے انتخابات 60 کے بجائے 90 دن میں کرانے کے لیے وزیر اعظم نے اسمبلی کو مدت مکمل ہونے سے تین دن پہلے تحلیل کرنے کے لیے صدر مملکت کو سمری بھیجنے کا اعلان کر رکھا ہے۔

پاکستان کے آئین کے مطابق اگر قومی اسمبلی اپنی مدت مکمل کرکے تحلیل ہوتی ہے تو انتخابات دو ماہ کے اندر کرانا لازمی ہیں، جبکہ اسمبلی اپنی مدت سے پہلے تحلیل کر دی جائے تو الیکشن کمیشن کے پاس انتخابات کے انعقاد کے لیے تین ماہ کا وقت ہوتا ہے۔

قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد نگران وزیر اعظم کی قیادت میں نگران حکومت تشکیل پائے گی لیکن نگران وزیر اعظم کا انتخاب کیسے ہوتا ہے، نگران حکومت کا قیام کیسے عمل میں آتا ہے، اس کا کام اور اختیارات کیا ہوتے ہیں، یہ وہ سوالات ہے جن کا ہر کوئی جواب جاننا چاہتا ہے جس کو ذیل میں بیان کیا جارہا ہے۔

قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا کیا مطلب ہے؟

لفظ تحلیل کے معنی یوں تو کسی چیز کا رفتہ رفتہ بکھر جانا، ختم ہوجانا ہے مگر اسے ملک میں سیاسی میدان کے تناظر میں دیکھا جائے، تو یہ اصطلاح آئینی طور پر ایک متعین راستہ ہے۔ قومی اسمبلی جیسا کہ آئین کے آرٹیکل 52 میں بیان کیا گیا ہے، اپنے پہلے اجلاس کے دن سے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے پر تحلیل ہو جاتی ہے۔

مثال کے طور پر موجودہ اسمبلی کی مدت 13 اگست 2018 کو شروع ہوئی تھی۔ مدت پوری ہونے پر اس کی تحلیل صرف رسمی عمل نہیں ہے بلکہ یہ ایک جمہوری طریقہ کار ہے جو شہریوں کو ہر پانچ سال بعد اپنا ووٹ ڈالنے اور نئی حکومت منتخب کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

قومی اسمبلی کیسے تحلیل ہوتی ہے؟

آئین کے مطابق قومی اسمبلی کی تحلیل کے لیے وزیر اعظم، صدر مملکت کو سمری بھیجنے کے پابند ہیں اور سمری موصول ہونے کے بعد صدر کے پاس اس کی منظوری کے لیے 48 گھنٹے کا وقت ہوتا ہے۔

آئین پاکستان کی شق 224 کی ذیلی شقوں کے مطابق اگر شق 58 کے تحت اسمبلی تحلیل ہو جائے، تو صدرِ مملکت وزیرِ اعظم اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف کی مشاورت سے نگران وزیرِ اعظم تعینات کریں گے۔

تاہم اٹھارہویں ترمیم کے بعد یہ تعیناتی صدرِ مملکت کا اختیار نہیں بلکہ یہ وزیر اعظم اور قائدِ حزبِ اختلاف کے درمیان اتفاق رائے کے بعد عمل میں آتی ہے۔

اگر صدر مملکت کسی بھی وجہ سے مقررہ مدت میں سمری منظور نہیں کرتے تو 48 گھنٹے مکمل ہونے کے بعد اسمبلی خود بخود تحلیل ہوجاتی ہے لیکن اس کے اسپیکر، اگلے انتخابات کے بعد نئے اسپیکر کے منتخب ہونے کے تک آئینی طور پر اس عہدے پر فائز رہتے ہیں اور وہی نئے اسپیکر سے عہدے کا حلف لیتے ہیں۔

قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد کیا ہوگا؟

ایوان زیریں کے تحلیل ہونے کے بعد آئین کی شق 224 کے تحت نگران حکومت تشکیل پاتی ہے جس کی باگ ڈور نگران وزیر اعظم سنبھالتا ہے اور اپنی ایک نسبتاً مختصر نگران کابینہ منتخب کرتا ہے۔

نگران کابینہ کے وزرا اپنے اپنے قلم دان سنبھالنے کے بعد وزارتوں کے تحت فرائض انجام دیتے ہیں اور آئین کے تحت حاصل اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ملکی امور چلاتے ہیں۔

نگران حکومت کی کوئی حزب اختلاف نہیں ہوتی اور اسے کسی صوبائی اسمبلی یا قومی اسمبلی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ اس کے وزرا کسی ایوان کو جواب دہ نہیں ہوتے اور نہ ان سے کسی فورم پر سوال ہوتا ہے۔

نگران حکومت کا کیا کام ہوتا ہے؟

پاکستان میں نگران حکومت کی اصل ذمہ داری عام انتخابات میں منتخب ہونے والی حکومت کے انتظام سنبھالنے تک ملک کے روزمرہ کے معاملات چلانا ہوتا ہے اور اسے فیصلوں اور پالیسی سازی کے حوالے سے منتخب حکومت جیسے اختیارات حاصل نہیں ہوتے۔

تاہم 26 جولائی 2023 کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 230 میں جو ترمیم کی گئی اس کے تحت نگران حکومت اب روزمرہ کے حکومتی امور نمٹانے کے ساتھ ساتھ پہلے سے جاری منصوبوں اور پروگرامز سے متعلق اختیارات استعمال کر سکے گی اور اہم پالیسی فیصلے بھی لے سکے گی۔

کون اور کب کب نگران وزیراعظم رہا؟

ملک کے پہلے نگران وزیراعظم غلام مصطفیٰ جتوئی تھے جنہوں نے 6 اگست 1990ء سے لے کر 6 نومبر 1990ء تک نگران حکومت کی سربراہی کی اور ان کی زیرِ نگرانی 1990ء میں پاکستان کے 5ویں عام انتخابات کا انعقاد ہوا، انتخابات کے بعد میاں نواز شریف پاکستان کے وزیرِاعظم بنے۔

میر بلخ شیر مزاری 18 اپریل 1993ء سے 26 مئی 1993ء تک ملک کے دوسرے نگران وزیرِاعظم رہے۔ ملک کے تیسرے نگران وزیرِاعظم معین قریشی تھے جنہوں نے 18 جولائی 1993ء سے 19 اکتوبر 1993ء تک یہ ذمہ داریاں سرانجام دیں۔ انہی کی زیرِ نگرانی 1993ء میں پاکستان کے چھٹے عام انتخابات منعقد کیے گئے جس کے بعد بے نظیر بھٹو دوسری مرتبہ پاکستان کی وزیرِاعظم منتخب ہوئیں۔

ملک معراج خالد ملک کے چوتھے نگران وزیراعظم تھے۔ انہوں نے اپنی ذمہ داریاں 5 نومبر 1996ء سے 17 فروری 1997ء تک انجام دیں۔ انہی کی سربراہی میں 1997ء میں ملک کے 7ویں عام انتخابات منعقد ہوئے اور نواز شریف دوسری مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔

پاکستان میں 2002ء میں ہونے والے 8ویں عام انتخابات جنرل مشرف کی فوجی حکومت کی نگرانی میں منعقد کیے گئے جس کے نتیجے میں میر ظفر اللہ جمالی ملک کے وزیرِاعظم منتخب ہوئے۔

محمد میاں سومرو نے 16 نومبر 2007ء سے 25 مارچ 2008ء تک ملک کے 5ویں نگران وزیراعظم کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ ان کی زیرِ نگرانی 2008ء میں ملک کے 9ویں عام انتخابات کا انعقاد ہوا اور پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی ملک کے وزیرِاعظم منتخب ہوئے۔

پاکستان کے چھٹے نگران وزیراعظم جسٹس ریٹائرڈ میر ہزار خان کھوسو تھے جو 25 مارچ 2013ء سے 5 جون 2013ء تک نگران وزیر اعظم رہے۔ ان کے زیرِ نگرانی 2013ء میں پاکستان کے 10ویں عام انتخابات منعقد کیے گئے جن کے نتیجے میں میاں نواز شریف تیسری مرتبہ ملک کے وزیرِاعظم منتخب ہوئے۔

پاکستان میں 11ویں عام انتخابات کے لیے سابق چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس (ریٹائرڈ) ناصر الملک ملک کے 7ویں نگران وزیراعظم تھے جنہوں نے 25 جولائی 2018ء کو ملک میں ہونے والے 11ویں عام انتخابات کی نگرانی کی اور یکم جون 2018 سے 18 اگست 2018 تک عہدے پر فائز رہے۔

نگران وزیرِاعظم کا تقرر کیسے ہوتا ہے؟

18ویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اور اپوزیشن جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے مرکز میں نگران حکومت، نگران وزیراعظم اور اسی طرح چاروں صوبوں میں نگران وزرائے اعلیٰ اور نگران حکومتوں کے حوالے سے نیا طریقہ کار متعارف کروایا۔ نئے طریقہ کار میں پہلے حکومت اور اپوزیشن، پھر پارلیمنٹ اور آخر میں الیکشن کمیشن کو اس معاملے میں شامل کیا گیا ہے۔

آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 224 کے تحت صدرِ پاکستان، نگران وزیراعظم کا تقرر کریں گے لیکن صدرِ پاکستان یہ تقرری اپنی مدت پوری کرنے والی اسمبلی کے وزیرِاعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے کریں گے۔ روایتی طور پر وزیرِاعظم اور اپوزیشن لیڈر 3، 3 نام ایک دوسرے کے سامنے رکھیں گے جن میں سے کسی ایک کا انتخاب کرکے صدرِ پاکستان کو بھجوا دیا جائے گا، جس پر صدر مہر تصدیق ثبت کردیں گے۔

اگر اسمبلی کی مدت ختم ہونے کے بعد 3 دن تک حکومت اور اپوزیشن کسی ایک نام پر اتفاق نہ کرسکیں تو اسپیکر اسمبلی ایک کمیٹی بنائیں گے۔ اس کمیٹی میں 4 نمائندے حکومت کے اور 4 اپوزیشن کے ہوں گے۔ ان کے سامنے دونوں طرف سے 2، 2 نام پیش کیے جائیں گے۔ 3 دن کے اندر اندر یہ کمیٹی کسی ایک نام پر اتفاق کرے گی، جس کسی کو بھی یہ کمیٹی منتخب کرے گی صدرِ پاکستان اسے نگران وزیراعظم مقرر کردیں گے۔

اگر کمیٹی بھی کسی نتیجے پر نہ پہنچے تو چاروں نام الیکشن کمیشن کو بھجوا دیے جائیں گے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان 2 دنوں میں ان چاروں ناموں میں سے ہی کسی ایک نام کو منتخب کرنے کا پابند ہوگا۔ یہ نام سب کو تسلیم کرنا ہوگا اور صدرِ پاکستان اسی شخص کو نگران وزیرِاعظم مقرر کردیں گے۔

یعنی اسمبلی کی مدت ختم ہونے کے بعد 8 دنوں میں ہر صورت نگران وزیراعظم کا انتخاب ہوجائے گا۔ یہی طریقہ صوبائی نگران سیٹ اپ کے لیے بھی آئین کے آرٹیکل 224 میں درج ہے۔

اسمبلی کی مدت ختم ہونے کے بعد نگران وزیرِاعظم کے انتخاب میں اگر 8 دن لگتے ہیں تو آئین کے مطابق اس دوران موجودہ وزیراعظم ہی فرائض سر انجام دیں گے۔ یہی طریقہ صوبائی سطح پر بھی اپنایا جائے گا۔

نگران وزیرِاعظم اور حکومت کے اختیارات

  • الیکشن ریفارمز ایکٹ 2017ء کے مطابق نگران حکومت کا کام صاف، شفاف اور غیر جانبدارنہ انتخابات کا انعقاد اور روزمرہ کے حکومتی امور انجام دینا ہے۔ نگران حکومت خود کو روزمرہ سرگرمیوں، غیر متنازع، اہم اور عوامی مفاد کے معاملات اور ان اقدامات تک محدود رکھے گی، جن کو مستقبل میں آنے والی حکومت واپس بھی لے سکے۔
  • نگران حکومت کے پاس کوئی بڑا پالیسی فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں۔ نگران حکومت کوئی ایسا فیصلہ یا پالیسی بھی نہیں بناسکتی جو آئندہ حکومت کے فیصلوں پر اثرانداز ہو۔ نگران حکومت عوامی مفاد کے خلاف کوئی بڑا معاہدہ نہیں کرسکتی۔
  • نگران حکومت کسی ملک یا بین الاقوامی ادارے کے ساتھ 2 طرفہ مذاکرات کا حصہ بن سکتی ہے اور نہ ہی کسی بین الاقوامی معاہدے پر دستخط کرسکتی ہے جب تک کہ ایسا کرنا انتہائی ضروری نہ ہو۔
  • نگران حکومت، سرکاری ملازمین کی تقرریاں، تبادلے یا ترقیاں بھی نہیں کرسکتی۔ ایسا صرف عوامی مفاد میں مختصر مدت کے لیے ہی کیا جاسکتا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے ضروری قرار دیے جانے پر ہی عوامی عہدہ رکھنے والے افسران کا تبادلہ کیا جاسکتا ہے۔
  • نگران حکومت کوئی بھی ایسا اقدام نہیں کرسکتی جو عام انتخابات کی شفافیت پر اثر انداز ہوسکے۔
  • نگران حکومت کے اراکین کو کسی قسم کی مراعات تاحیات نہیں ملتیں۔ یہاں تک کہ نگران وزیرِ اعظم کے پاس حکومت کی میعاد ختم ہونے پر کوئی مراعات نہیں ہوتیں۔
  • الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2023 کے مطابق ایکٹ کی شق 230 کے تحت نگران حکومت کو اضافی اختیارات حاصل ہوں گے۔ مجوزہ ترمیم میں مزید ترمیم کرتے ہوئے طے کیا گیا کہ نگران حکومت پہلے سے جاری پروگرام اور منصوبوں سے متعلق اختیارات استعمال کر سکے گی اور اہم پالیسی فیصلے لے سکے گی۔
  • الیکشن ایکٹ میں جو تازہ ترامیم کی گئی ہیں ان کے تحت الیکشن کے دن پولنگ ختم ہونے کے بعد پریزائیڈنگ افسر انتخابی نتائج رات 2 بجے تک الیکشن کمیشن اور ریٹرننگ افسر کو بھیجنے کا پابند ہوگا اور اگر ایسا نہیں ہو پایا تو تاخیر کی ٹھوس وجہ تحریری طور پر بتانے کا پابند ہوگا۔
  • ترمیمی بل کے مطابق نئی حلقہ بندیاں آبادی کے تناسب سے کی جائیں گی۔
  • بل کے تحت پولنگ کے دن سے پانچ روز قبل پولنگ اسٹیشن تبدیل نہیں کیا جاسکے گا، جبکہ قومی اسمبلی کی نشست کے امیدوار ایک کروڑ روپے تک جبکہ صوبائی نشست کے امیدوار انتخابی مہم پر 40 لاکھ تک خرچ کر سکیں گے۔

کیا نگران حکومت کی مدت میں اضافہ ہوسکتا ہے؟

اگرچہ اسمبلی اپنی مدت سے پہلے تحلیل کر دی جائے تو الیکشن کمیشن تین ماہ میں انتخابات کے انعقاد کا پابند ہے۔

تاہم مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کی جانب سے مردم شماری کے نتائج کی منظوری کے بعد الیکشن کمیشن نئی حلقہ بندیاں کرنے کا پابندی ہے اور کمیشن کے ایک عہدیدار کے مطابق اس عمل میں کم از کم چار ماہ لگیں گے۔

الیکشنز ایکٹ میں حالیہ ترامیم اور نئی حلقہ بندیوں کی ضرورت کے ساتھ ساتھ 9 اگست کو اسمبلی تحلیل کرنے کا حکومت کا فیصلہ اجتماعی طور پر یہ تاثر دیتا ہے کہ نگران سیٹ اپ کو ملک کی حکمرانی کو اپنی تکنیکی مدت سے کچھ زیادہ عرصے دیکھنا ہوگا۔

تاہم، وکیل عبدالمعز جعفری کے مطابق ’ کوئی بھی وجہ یا معاملہ الیکشن کمیشن نگراں مینڈیٹ میں 90 دن سے زیادہ تاخیر یا توسیع کی اجازت نہیں دیتا۔’

انہوں نے ڈان کو بتایا کہ ’نئی مردم شماری کے مطابق حلقہ بندیوں کا عمل وقت پر انتخابات کروانے کے لیے بنیادی فرض کے مقابلے میں ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’ای سی پی قانونی طور پر حلقہ بندیوں کی بنیاد پر نگران سیٹ اپ میں توسیع نہیں کر سکتا۔‘

اگر آئین کے آرٹیکل 235 کے تحت نگران حکومت کے دوران ’مالی ایمرجنسی‘ کا اعلان کیا گیا تو اس صورت حال پر وضاحت فراہم کرتے ہوئے عبدالمعز جعفری نے کہا کہ ’قانون واضح طور پر اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ یہ وفاق کی صوبوں کو اخراجات کو محدود کرنے کی ہدایت کی بات کرتا ہے، لیکن جب حکومت ہی نہیں ہوگی تو معاشی ایمرجنسی کا اعلان کون کرے گا؟‘

اسی طرح وکیل باسل نبی ملک نے وضاحت کی کہ پارلیمنٹ کا کوئی ایکٹ، آئین پاکستان کے مینڈیٹ کو ختم نہیں کر سکتا، اس لیے نگران حکومت کی مدت میں توسیع کے لیے کوئی قانون سازی آئین پر مقدم نہیں ہو سکتی۔

باسل نبی ملک نے مالی ایمرجنسی کے معاملے پر کہا کہ ’اگر کسی ایسے وقت میں معاشی یا مالیاتی ایمرجنسی کا اعلان کیا گیا جب قومی اسمبلی تحلیل ہو جائے تو یہ اعلان تین ماہ تک جاری رہ سکتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر اس مدت کے ختم ہونے سے پہلے عام انتخابات نہیں کرائے جاتے تو اس مدت کے پورے ہونے پر اس کا اثر ختم ہو جائے گا، تا وقت یہ کہ اس کی سینیٹ کی قرارداد کے ذریعے منظوری نہ دی جائے۔‘