پاکستان ریفائنری لمیٹڈ روسی خام تیل کی پروسیسنگ سے ’کترانے‘ لگی
پاکستان ریفائنری لمیٹڈ (پی آر ایل) نے مبینہ طور پر روسی خام تیل کو زیادہ مقدار میں پروسس کرنے کی اپنی صلاحیت کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا ہے جو کہ مقامی سطح پر ایندھن کی قیمتوں میں کمی کے لیے سستے روسی خام تیل پر انحصار بڑھانے کی سابقہ حکومت کی کوششوں کے لیے بڑا دھچکا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یوکرین کے خلاف روس کی جنگ کی وجہ سے یورپی منڈیوں میں اس کے تیل پر عائد پابندی کی وجہ سے رعایت پر دستیاب روسی تیل کی پروسیسنگ غیر ملکی کرنسی کی قلت اور پاکستانی ریفائنریز و بندرگاہوں کی محدود صلاحیت کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہے۔
ایک اور رکاوٹ یہ ہے کہ مقامی ریفائنریز روسی خام تیل سے اتنا پیٹرول اور ڈیزل نہیں نکال سکتیں جتنی کہ وہ مشرق وسطیٰ کے خام تیل سے پیدا کرتی ہیں۔
روس سے خام تیل کا پہلا کارگو جہاز جون میں پاکستان پہنچا تھا اور اس کی ادائیگی چینی کرنسی یوآن میں کی گئی تھی۔
روس سے یومیہ ایک لاکھ بیرول خام تیل حاصل کرنا ہدف تھا جو کہ 2022 میں پاکستان کی مجموعی ضرورت ایک لاکھ 54 ہزار یومیہ درآمدات کا تقریباً دو تہائی ہے۔
روس سے آنے والی پہلی کھیپ فوری طور پر صارفین کے لیے کوئی بچت کا باعث نہیں بنی، اس کے بجائے قومی اسمبلی کی تحلیل سے صرف ایک ہفتہ قبل سبکدوش ہونے والی مخلوط حکومت نے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں 20 روپے فی لیٹر تک اضافہ کردیا۔
ذرائع نے بتایا کہ پی آر ایل کو روسی خام تیل کی پروسیسنگ سے قابل ذکر مالی فائدہ نہیں ملا۔
ذرائع نے مزید کہا کہ خام تیل کی درآمدات میں اضافے کا اقدام مبینہ طور پر پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے صارفین کو خوش کرنے کے لیے ایک ’سیاسی اسٹنٹ‘ تھا۔
پاکستان ریفائنری لمیٹڈ کے سینئر ایگزیکٹوز نے معاملے پر ردعمل دینے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔
گزشتہ کابینہ میں وزیر مملکت برائے پیٹرولیم مصدق ملک نے ڈان کو بتایا کہ جب تک وہ انچارج تھے اس وقت پی آر ایل نے روسی خام تیل کو پروسیس کرنے سے انکار نہیں کیا تھا، بدھ کی درمیانی شب قومی اسمبلی تحلیل کر دی گئی تھی۔
کچھ ذرائع کا اندازہ ہے کہ روسی خام تیل درآمد سے پاکستان ریفائنری لمیٹڈ کو مالی فائدہ 50 پیسے اور ایک روپے فی لیٹر کے درمیان ہوگا، انہوں نے کہا کہ یہ معمولی فائدہ صارفین کے لیے ڈیزل اور پیٹرول کی قیمتوں میں صرف 15 سے 20 پیسے فی لیٹر کی کمی کا باعث بن سکتا ہے جو کہ بنیادی اشیائے ضروریہ کی بڑھتی قیمتوں کے پیش نظر انتہائی معمولی رقم ہے۔
صنعت سے منسلک ذرائع نے بتایا کہ پاکستان ریفائنری لمیٹڈ نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ دیگر ریفائنریز کو بھی روسی خام تیل کی پروسیسنگ کی ذمہ داری اور چیلنجز کو برداشت کرنا چاہیے جس کے نتیجے میں پی آر ایل کو کوئی خاص مالی فائدہ نہیں ہوا۔
مقامی سطح پر ایندھن کی قیمتوں میں کمی کے حوالے سے کم سے کم فوائد کے پیش نظر اندرونی ذرائع سمجھتے ہیں کہ عام انتخابات کے بعد تک عبوری حکومت مزید روسی خام تیل درآمد کرنے سے کترائے گی۔
پی آر ایل کے سی ای او زاہد میر نے گزشتہ ماہ غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کو بتایا تھا کہ ریفائنری کو ایک لاکھ روسی خام تیل کی پہلی کھیپ کو مکمل طور پر پروسیس کرنے کے لیے تقریباً 2 ماہ کا وقت درکار ہوگا۔