• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

صدر مملکت نے دونوں بلز واپس نہیں بھیجے، قانون عمل میں آچکا ہے، نگران وزیر اطلاعات

شائع August 20, 2023
نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی اور نگران وزیر قانون احمد عرفان اسلم مشترکہ پریس کانفرنس کررہے تھے — فوٹو: ڈان نیوز
نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی اور نگران وزیر قانون احمد عرفان اسلم مشترکہ پریس کانفرنس کررہے تھے — فوٹو: ڈان نیوز

نگران وزیر قانون احمد عرفان اسلم نے کہا ہے کہ صدر مملکت کے پاس بل موصول ہونے کے بعد اسے منظوری دینے یا اعتراضات لگا کر واپس بھیجنے کے لیے 10 دن کا وقت ہوتا ہے، صدر مملکت کی جانب سے یہ بلز موصول نہیں ہوئے اور اگر وہ دونوں رستے نہیں لیتے تو وہ قانون خود بخود عمل میں آجاتا ہے اور وہ نوٹیفائی ہو جائے گا۔

نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے احمد عرفان اسلم نے کہا کہ صدر مملکت وفاق کے سربراہ ہیں، ان کی تعظیم ہم سب کے دلوں میں ہے، بے حد احترام بھی ہے اور ہمیں صرف اپنے آپ کو قانون اور حقائق پر محدود رکھنا ہے، ہم کوئی سیاسی گفتگو نہیں کریں گے، حقائق اور قانون کی بات کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ صدر مملکت نے جو ٹوئٹ کیا وہ دو قوانین پاکستان آرمی ترمیمی بل اور آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل کے بارے میں ہے، پاکستان آرمی ترمیمی بل 27 جولائی کو سینیٹ نے منظور کیا، یہی بل 31 جولائی کو قومی اسمبلی نے منظور کیا اور یہ ایوان صدر کو 2 اگست کو موصول ہوا تاکہ اس پر صدر کی منظوری لی جا سکے۔

نگران وزیر قانون نے کہا کہ آفیشل سیکرٹس ترمیمی بل قومی اسمبلی نے یکم اگست کو منظور کیا اور سینیٹ کو بھیجا، سینیٹ نے کچھ آبزرویشنز لگا کر قومی اسمبلی کو بھیجا اور قومی اسمبلی نے ان آبزرویشنز کے ساتھ اس کو 7 اگست کو منظور کر لیا، یہ بل 8 اگست کو ایوان صدر کو موصول ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 75 کے تحت جب کوئی بل صدر مملکت کو منظوری کے لیے بھیجا جاتا ہے تو صدر مملکت کے پاس دو اختیارات ہیں، صدر مملکت کے پاس پہلا اختیار یہ ہے کہ وہ اس بل پر اپنی منظوری دے دیں، صدر مملکت کے پاس دوسرا قانونی راستہ یہ ہے کہ اگر اس پر ان کی کوئی آبزرویشنز ہیں وہ انہیں تحریری انداز میں بل کے ساتھ واپس بھیجیں تاکہ صدر مملکت کی رہنمائی کو مجلس شوریٰ زیر غور لا سکے۔

انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 75 کے تحت صدر مملکت کے پاس کوئی تیسرا اختیار نہیں ہے اور ان دونوں اختیارات پر عملدرآمد کے لیے قانونی وقت 10 دن آئین میں لکھا ہوا ہے، صدر مملکت کے پاس فیصلے کے لیے 10 دن تک یہ دونوں راستے موجود تھے۔

احمد عرفان اسلم نے کہا کہ ماضی میں صدر مملکت نے دونوں رستے لیے، بہت سے قوانین ایسے تھے جہاں صدر مملکت نے اپنی رضامندی کا اظہار کیا، اپنے دستخط ثبت کیے اور بھیجا، کچھ معاملات ایسے تھے جہاں صدر مملکت کے تحفظات تھے، انہوں نے اپنے تحفظات ریکارڈ کیے، اپنے دستخط ثبت کیے اور واپس بھیج دیا، ایسی نوعیت ایسے پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی اور بالخصوص ایسی نوعیت نہیں ہوئی تھی جس میں الزام لگا ہو کہ کوئی غفلت کا مرتکب ہوا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں نگران وزیر اطلاعات نے کہا کہ صدر مملکت کی کیا خواہش اور منشا ہے کہ وہ کب اور کیسے اس آئینی عہدے پر رہنا چاہتے ہیں یا نہیں رہنا چاہتے، ہمارے پاس جاننے کا ایسا کوئی علم نہیں ہے کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ صدر مملکت کی جانب سے یہ بلز موصول نہیں ہوئے جس کا عندیہ انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں بھی دیا ہے، اگر بل واپس موصول نہیں ہوئے تو اس میں آبزرویشنز کیا ہوں گی۔

مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ جس ٹوئٹ میں صدر نے ذکر کیا کہ میں نے ان اعتراضات کی وجہ سے ان بلوں کو واپس بھجوایا جو ہمارے خیال میں واپس نہیں بھیجے گئے، تو یہی اعتراضات اس بل پر لگا کر بھیج سکتے تھے جو وہ ماضی میں کرتے رہے ہیں لیکن انہوں نے شاید یہ زیادہ مناسب سمجھا کہ وہ ذاتی ٹوئٹر اکاؤنٹ سے اس کی وضاحت فرمائیں، یہ ان کی اپنی مرضی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں نگران وزیر اطلاعات نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ہم صدر مملکت کی تصدیق یا تردید نہیں کر رہے لیکن اگر کوئی بات نہ ہوتی تو ہم یہاں نہ ہوتے، ایک ٹوئٹ ہے جو بظاہر ایک ابہام پیدا کرنے کی کوشش لگتی ہے اور اس کی وضاحت ہو گئی ہے، ہمارے آنے کا مقصد تحقیقات کرانا نہیں ہے، وزارت قانون کے سربراہ نے قانونی نکات کی توجیح پیش کردی، یہی ہمارا مقصد تھا اور وہ ہم نے پورا کردیا۔

واضح رہے کہ اس تنازع نے اس وقت جنم لیا جب آج صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل اور پاکستان آرمی ترمیمی بل پر دستخط کی تردید کی۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر جاری بیان میں عارف علوی نے کہا کہ خدا گواہ ہے، میں نے آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل 2023 اور پاکستان آرمی ترمیمی بل 2023 پر دستخط نہیں کیے کیونکہ میں ان قوانین سے متفق نہیں ہوں۔

انہوں نے لکھا کہ میں نے اپنے عملے سے کہا تھا کہ وہ دستخط کے بغیر بلوں کو مقررہ وقت کے اندر واپس بھیج دیں تاکہ انہیں غیر مؤثر بنایا جا سکے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024