عورت رو بھی نہیں سکتی
ہندوستان میں عورتوں کی زندگی دن بدن دشوار ہوتی جا رہی ہے۔ انہیں ڈر ہوتا ہے کہ کوئی مرد انہیں جسمانی نقصان پہنچائے گا، ان کے ساتھ بدزبانی کریگا یا پھر وہ جانے یا انجانے مرد کے ہاتھوں زنا کا شکار ہو جائینگی۔
یہ بیان حزب اختلاف کی ایم پی نجمہ ہیپت الله نے پارلیمنٹ میں دیا۔ وہ دہلی میں تن تنہا رہتی تھیں اورخوف زدہ۔ ان عورتوں کی کیا حالت ہوتی ہو گی جنھیں وحشی انسانوں کے ساتھ زندگی گزارنی پڑتی ہے یا پھر جنہوں نے ایسے مردوں کو جنم دیا؟ آیئے ہم دو ماؤں کا ذکر کریں جنہوں نے ایسے ہی مرد اپنی کوکھ سے پیدا کئے تھے جن کی کہانی انڈین ایکسپریس اور ٹائمز آف انڈیا میں اسی ہفتے شائع ہوئی ہے۔
میرا خیال ہے کہ ان کہانیوں سے ہمیں بہتر طور پر یہ سمجھنے میں مدد ملیگی کہ عورتیں کن ڈراؤنے حالات میں زندگی بسر کررہی ہیں، خواہ کسی نے ان کا ریپ کیا ہو یا وہ کسی ریپ کرنے والے کی رشتہ دار ہوں۔
ایکسپریس نے ایک ایسی ماں کا انٹرویو کیا جسکا بیٹا مبینہ طور پر اس گروپ میں شامل تھا جس نے دسمبر میں دہلی کی ایک بس میں ایک عورت کا ریپ کیا حتیٰ کہ وہ اسکی تاب نہ لا کر چل بسی۔
ٹائمز آف انڈیا نے ایک ایسی ماں کی کہانی شائع کی ہے جس کے بیٹے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ان کباڑیوں یا نشہ کے عادی لوگوں کے ساتھ تھا جنہوں نے گزشتہ ہفتے ایک صحافی عورت کے ساتھ ممبئی کی ایک بند کپڑے کی مل میں زیادتی کی۔ ممبئی کی اس ماں کی کہانی پڑھنے کے بعد جس کا نام چاند بی بی تھا ایک مرد قاری نے جواب میں لکھا کہ "اس کی ماں کا ریپ اس کی آنکھوں کے سامنے کیا جائے تا کہ وہ اس سے سبق سیکھے۔"
ہندوستان کا معاشرہ جس طرح دن بدن بے حس اور تشدد پسند ہوتا جا رہا ہے اس قسم کے ردعمل کی یہ واحد مثال نہیں ہے اس میں مایوسی کا عنصر بھی شامل ہے۔
ایک خاتون نے اس خیال کا اظہار کیا "ہمیں جبری طور پر برتھ کنٹرول کی ضرورت ہے کیونکہ اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے نوجوان کس طرف جارہے ہیں۔ انہیں مواقع نہیں ملتے لیکن اب بھی ایسے والدین موجود ہیں جو بچہ پہ بچہ پیدا کرتے جا رہے ہیں۔"
اسی دوران میں ٹائمز میں رپورٹ چھپی کہ اکیس سالہ قاسم شیخ کو اتوار کے دن ممبئی کی صحافی خاتوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا۔ اسے پولیس کے لاک اپ میں رکھا گیا جہاں اگلے دن اس کی ماں چاند بی بی اس سے ملنے گئی۔
"وہ برقعہ پہنے ہوئے تھا اور مجھے دیکھ کر رونے لگا" چاند بی بی نے روتے ہوئے بتایا "بڑے صاحب نے اس سے کہا کہ وہ تمام واقعہ اسے بتائے۔ قاسم نے اعتراف کیا کہ اس نے لڑکی کے ساتھ زیادتی کی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا اس نے ایسا کیوں کیا تو وہ خاموش رہا۔ میں کانپ گئی۔"
چاند بی بی کے شوہر کا انتقال دس سال پہلے ہوا تھا اور وہ تین بچوں کے ساتھ جھونپڑ پٹی میں رہتی ہے۔
اپنی داستان سناتے ہوئے اس نے بتایا "اتوار کے دن چند صحافی میرے پاس آئے اور انہوں نے بتایا کہ پولیس نے میرے بیٹے کو گرفتار کر لیا ہے۔ میں رات کو کرائم برانچ آفس گئی اور گھنٹوں وہاں انتظار کرتی رہی لیکن بڑے صاحب نے مجھے اپنے بیٹے سے ملنے کی اجازت نہ دی چنانچہ میں دوسرے دن پیر کی صبح پھر وہاں گئی۔"
ٹائمز کی رپورٹ میں چند دلچسپ باتیں ہیں کہ پولیس کس طرح تحقیقات کرتی ہے یا پھر وہ عورتوں کے ساتھ کس طرح پیش آتی ہے۔ "صاحب نے مجھے دو دن بعد آنے کو کہا۔ میں نے ان سے فریاد کی کہ وہ مجھے اپنے بیٹے سے ملنے دیں لیکن انہوں نے میرے منہ پر دو تھپڑ لگائے۔ میں اسے سہہ گئی کیونکہ میں اپنے بیٹے سے ملنا چاہتی تھی۔ چند منٹ بعد وہ قاسم کو لیکر میرے سامنے آئے۔"
تو یہ تھی چاند بی بی کی قسمت: اس کے بیٹے نے اسے کہیں کا نہ چھوڑا تھا، میڈیا رپورٹ پڑھنے والوں نے اسے برا بھلا کہا کہ وہ کیوں اپنے بیٹے سے ملنے گئی اور پھر کانسٹیبل نے اسے اس لئے تھپڑ مارے کہ وہ اپنے مجرم بیٹے سے ملنا چاہتی ہے۔
ایکسپریس کی رپورٹ میں بھی اس ماں کی دکھ بھری کہانی تھی جس کا بیٹا دہلی کے ریپ کیس میں پکڑا گیا تھا۔ ہم اس ماں سے ملنے مغربی اترپردیش کے ایک گاؤں میں پہنچے۔
"گزشتہ سال دسمبر کی سردیوں کی صبح تھی کہ اتر پردیش کا یہ سویا ہوا گاؤں اپنی گلیوں میں پولیس کی گاڑیوں کی گھڑگھڑاہٹ سے جاگ اٹھا۔ پولیس نے اس لڑکے کا پتہ پوچھا جسے کوئی نہ جانتا تھا" رپورٹ میں کہا گیا تھا۔
پولیس اس لڑکے کے باپ کی تلاش میں تھی۔ چنانچہ پولیس کو اس عمارت میں لے جایا گیا جسکا آدھا حصّہ اینٹوں کا تھا اور باقی آدھا حصّہ پلاسٹک کی چادروں کا۔ باپ جو کئی برسوں سے ذہنی بیمار تھا سمجھ ہی نہ سکا کہ پولیس اس سے کیا کہہ رہی ہے۔
پولیس والوں نے اس کی ماں کو بتایا کہ اس کے سب سے بڑے بیٹے کو دہلی کی ایک تئیس سالہ طالبہ کے ساتھ اجتماعی زیادتی اور قتل کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔
چند مہینوں بعد اسے بتایا گیا کہ اس کے بیٹے کی قسمت کا فیصلہ 31 اگست کو جوینائل جسٹس بورڈ کریگا۔ اس کے پاس نہ تو پیسے تھے اور نہ ہی دہلی میں اس کا کوئی جاننے والا، تو اس کیلئے ممکن نہ تھا کہ وہ فیصلہ والے دن وہاں موجود ہوتی۔ سچّی بات تو یہ ہے کہ یہ عورت جو کھیتوں میں کام کرتی ہے اور چھ بچوں کی ماں ہے اور جسے کام بھی اس زمانے میں ملتا ہے جب فصلیں کٹنے کا موسم ہوتا ہے تو اس کے پاس تو اتنا پیسہ بھی نہیں ہے کہ وہ اگلے چند مہینوں میں اپنے بچوں کو ٹھیک سے کچھ کھلا پلا سکے۔
اس کے بیٹے کی گرفتاری کے بعد میڈیا میں جو اس کی کوریج ہوئی اس کے نتیجے میں شائد اسے کچھ پیسے ملے ہوں جس کی اسے شدید ضرورت تھی لیکن اس وقتی خیرات کے باوجود صحافیوں کے سوالات نے اسے پریشان کر دیا۔
"میری زندگی پہلے ہی سے دکھوں سے اتنی بھری ہے کہ میں کہاں تک ہر وقت اپنے بڑے بیٹے کے بارے میں سوچتی رہوں۔ اس کا باپ، اتنے سارے بھوکے لوگ، نہ میرے پاس کھانے پینے کا سامان ہے نا پیسہ، نا ہی کام اور نہ کوئی رشتہ دار" وہ اپنے بڑے بیٹے کی گرفتاری کے خیال پر دل برداشتہ ہوئے بغیر کہتی ہے۔
زنا صرف غریب ہی نہیں کرتا، قطعاً نہیں۔ اس کے برعکس، یہ طاقتور جاگیردار طبقہ ہے جو عورتوں پر، خاص طور پر دلت عورتوں پر مل جل کر زیادتی کرتا ہے۔ ملک میں ذات پات کی ملی جلی آبادی نے اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والی عورتوں کو ایک عجیب مخمصے سے دوچار کر دیا ہے۔ ان کے مرد عورتوں پر زیادتی کرتے تھے جسے اس زمانے کے رسم و رواج کے مطابق نچلے طبقے کی عورتوں کے لئے قابل قبول سمجھا گیا تھا۔
مثلاً کیا ایک اعلیٰ ذات کی ٹھاکر عورت کسی دلت عورت پراجتماعی زیادتی پر چپ سادھ لے گی جس میں اس کے زمیندار خاندان کی نوعمر اولاد ملوث ہو؟ اس سوال کا جواب دینا آسان نہیں۔
ایک پدرسری معاشرے میں عورتوں کو دو سطحوں پر طاقت کے مذموم استعمال کا سامنا ہے۔ ایک تو وہ زیادتی جو ان پر کی جاتی ہے دوسرے اسوقت، جب انہیں یا تو ان کا ساتھ دینے یا چپ سادھ لینے پر مجبور کر دیا جاتا ہے، ایسی صورت میں کہ جنسی تشدد کسی نچلی ذات کی عورت پر کیا گیا ہو۔
"بینڈٹ کوئین پھولن دیوی" نے اپنے اوپر ہونے والی زیادتی کا بدلہ اپنے اوپر زیادتی کرنے والوں کو گولی مار کر لیا تھا۔
لیکن گجرات کی ان عورتوں کو کیا کہا جائے جو اسے سہہ گئیں یا پھر اس زیادتی اور قتل عام کو تحسین آمیز نظروں سے ہوتے دیکھا جو 2002 میں ایک دوسرے مذہب کے لوگوں پر ہوا تھا؟
مجھے یقین ہے کہ باب مارلے کی آنکھیں رونے لگتیں۔
ترجمہ: سیدہ صالحہ