• KHI: Fajr 5:10am Sunrise 6:26am
  • LHR: Fajr 4:38am Sunrise 5:59am
  • ISB: Fajr 4:42am Sunrise 6:05am
  • KHI: Fajr 5:10am Sunrise 6:26am
  • LHR: Fajr 4:38am Sunrise 5:59am
  • ISB: Fajr 4:42am Sunrise 6:05am

احد چیمہ کیس: نیب کے پاس کسی کےخلاف مقدمے کیلئے لامحدود اختیارات کیوں ہیں، جسٹس جمال مندوخیل

شائع August 25, 2023
احد چیمہ آشیانہ ہاؤسنگ کیس میں بری ہوگئے تھے—فائل/فوٹو: ڈان نیوز
احد چیمہ آشیانہ ہاؤسنگ کیس میں بری ہوگئے تھے—فائل/فوٹو: ڈان نیوز

سپریم کورٹ کے جسٹس جمال خان مندوخیل نے نگران وزیراعظم کے مشیر احد چیمہ کے کیس کی سماعت کے دوران سوال اٹھایا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کے پاس کسی کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے لیے لامحدود اختیارات کیوں ہیں جبکہ عدالت نے احد چیمہ کی ضمانت کے خلاف نیب کی درخواست مسترد کردی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے نگران وزیراعظم کے مشیر احد چیمہ کی ضمانت منسوخی کے کیس کی سماعت کی۔

نیب کے پراسیکیوٹر جنرل شریف جنجوعہ نے سماعت کے دوران کہا کہ احد چیمہ کے کیس کی ازسر نو تحقیقات کی گئیں اور نتیجہ نکلا کہ احد چیمہ پر نیب کا کیس بنتا ہی نہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ احد چیمہ تین سال جیل میں رہے اب نیب کہتا ہے کیس ہی نہیں بنتا، احد چیمہ کے جیل میں گزرے تین سال کا مداوا کون کرے گا، نیب رویے کی وجہ سے بریگیڈیئر (ر) اسد منیر نے خودکشی کر لی، انتقال کے بعد وہ بھی عدالت سے بری ہوگئے، نیب ایمان دار لوگوں کے ساتھ اس قسم کا رویہ کیوں رکھتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ان کے ایک دوست کو نیب نے بطور گواہ بلایا اور 5 گھنٹے بٹھائے رکھا، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کو 5 گھنٹے بٹھائے رکھنے کے بعد کہا گیا بعد میں آنا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ احتساب بیورو، سیاسی انجینئرنگ کے لیے مشرف نے بنایا تھا جسے نیب خود ثابت کر رہا ہے، جو کچھ نیب کرتا رہا ہے اس کی ذمہ داری کسی پر تو ڈالنی ہوگی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ نیب میں پراسیکیوٹر رہا ہوں اس لیے سسٹم سے اچھی طرح واقف ہوں، نیب میں بلیو، یلو اور ڈارک روم بنائے گئے ہیں، جن کا مقصد صرف سیاست ہے، ہر رنگ کے کمرے کا الگ مقصد ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نیب نے احد چیمہ کیس میں 24 بار ہائی کورٹ میں التوا مانگا، نیب کا کنڈکٹ ہائی کورٹ نے تفصیل سےفیصلے میں بیان کیا اور نیب نے وہی فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ کئی سال تک بندے کو قید رکھنے کے بعد بھی نیب کہتا ہے تحقیقات میں کچھ نہیں ملا، نیب بتائے کہ آخر یہ درخواست دائر کر کے مقدمات کے بوجھ میں اضافہ کیوں کیا، احد چیمہ معصوم تھے کیونکہ ان کے خلاف تو جرم ہی ثابت نہیں ہوا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ نیب کئی مقدمات میں ملزمان کو جیل میں رکھنے کے بعد کہتا ہے کہ کیس واپس لے رہے ہیں، ملزم کو اتنے سال قید میں رہ کر بریت کے بعد نیب پر کیس کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ نیب کے پاس کسی کے بھی خلاف مقدمات بنانے کی لامحدود طاقت کیوں ہے، کیا اصول، اخلاقیات اور قانون نیب پر لاگو نہیں ہوتے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ نیب کو ملنے والے اختیارات امانت ہیں، نیب نے احد چیمہ کے خلاف پہلی تحقیقات کو نقائص سے بھرپور تسلیم کرلیا ہے، قانون کا غلط استعمال کرکے نیب کو سختی کا آلہ کار بنایا گیا۔

جسٹس اطہر من اللہ بولے یہ کیس مثال بننا چاہیے، جرمانہ ہونا چاہیے جو بھی نیب کے چیئرمین رہے، سب ذمہ دار ہیں۔

عدالت عظمیٰ نے نیب کی احد چیمہ کے خلاف مقدمہ واپس لینے کی استدعا منظور کرتے ہوئے کہا کہ نیب قانون کو مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا، نیب کے اقدامات کی وجہ سے ادارے کا وقار اور عوام کا اعتماد متاثر ہوا ہے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ اچھی اور ذمہ دار حکومت کے لیے لازمی ہے کہ ملکی احتساب کا ادارہ مس لیڈ نہ ہو اور نیب اپنی کارکردگی قانون میں دیے گئے مقاصد کے مد نظر بہتر کرے۔

یاد رہے کہ 2018 کے انتخابات سے قبل پنجاب میں نیب کی جانب سے کرپشن کے خلاف ہونے والے کریک ڈاؤن کا پہلا ہائی پروفائل کیس احد چیمہ کا تھا اور اس وقت بظاہر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور ان کے قریبی رہنماؤں کو نشانہ بنانے کے لیے نیب متحرک تھی۔

نیب نے احد چیمہ کو 21 فروری 2018 کو اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکیم سے متعلق انکوائری کے لیے تفتیشی ٹیم کے سامنے پیش ہوئے تھے۔

بعد ازاں نیب نے ان کے خلاف الگ الگ انکوائریاں شروع کی تھیں، جن میں لاہور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) سٹی اور آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس بھی تھا، احمد چیمہ کو گرفتاری کے طویل عرصے بعد اپریل 2021 میں تین مقدمات میں ضمانت دی گئی تھی۔

نیب نے رواں برس 20 مئی کو احد چیمہ کے ساتھ سابق وزیراعظم شہباز شریف کو آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکیم کیس میں کلیئر قرار دیتے ہوئے الزامات ختم کردیے تھے۔

کارٹون

کارٹون : 4 اکتوبر 2024
کارٹون : 3 اکتوبر 2024