• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

بنگلہ دیش میں ’جبری گمشدگیوں‘ کے خلاف ہزاروں افراد کا مظاہرہ

شائع August 31, 2023
10 سالہ لڑکی مریم بشریٰ کا کہنا تھا کہ میں اپنے والد کی گھر واپسی چاہتی ہوں — فوٹو: اے ایف پی
10 سالہ لڑکی مریم بشریٰ کا کہنا تھا کہ میں اپنے والد کی گھر واپسی چاہتی ہوں — فوٹو: اے ایف پی

بنگلہ دیش میں ہزاروں افراد نے مظاہرہ کیا اور وزیر اعظم شیخ حسینہ کے تقریباً 15 سال کے اقتدار کے دوران سیکیورٹی فورسز کی جانب سے اٹھائے گئے سیکڑوں افراد کی معلومات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔

ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیشی حکومت نے ماورائے عدالت قتل اور لاپتا کرنے کے الزامات کو مسترد کر دیا اور کہا کہ لاپتا قرار دیے جانے والے افراد میں سے کچھ یورپ جانے کی کوشش میں بحیرہ روم میں ڈوب گئے۔

بنگلہ دیش میں عام انتخابات کا انعقاد جنوری میں ہونا ہے لیکن انسانی حقوق کے گروپ اور غیر ملکی حکومتیں طویل عرصے سے شیخ حسینہ واجد کی حکومت کی جانب سے سیاسی مخالفین اور تنقید کرنے والوں کو خاموش کروانے کی کوششوں پر تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں۔

بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے حکام حمام قدیر چوہدری نے بتایا کہ میں صرف ڈرتا نہیں ہوں، ہر روز جب صبح میں سو کر اٹھتا ہوں تو میں بہت زیادہ خوفزدہ ہوتا ہوں، انہوں نے دعویٰ کیا کہ سیکیورٹی فورسز نے انہیں 7 ماہ تک حراست میں رکھا تھا۔

انہوں نے ڈھاکا میں مظاہرین کو بتایا کہ جب وہ حراست میں تھے تو انہوں نے ٹی وی پر ایک سینئر حکام کا یہ بیان دیکھا کہ انہیں گرفتار نہیں کیا گیا۔

بی این پی کے حامی اور ان کے اتحادیوں نے لاپتا افراد کے اہل خانہ کی جانب سے نکالی گئی ریلی میں شرکت کی، جو جبری گمشدگیوں کے متاثرین کے عالمی دن کے موقع پر شامل ہوئے، ان میں سے متعدد افراد نے اپنے منہ پر سیاں پٹیاں باندھ رکھی تھی۔

سماجی کارکن اور وکیل احمد بن قاسم کے ہمراہ 10 سالہ لڑکی مریم بشریٰ اپنے والد کی تصویر تھامے کھڑی تھی، ان کا کہنا تھا کہ میں اپنے والد کی گھر واپسی چاہتی ہوں۔

ہیومن رائٹس واچ نے بتایا کہ شیخ حسینہ واجد کے 2009 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے سیکیورٹی فورسز نے ’600 سے زائد جبری گمشدگیوں‘ کا ارتکاب کیا ہے اور تقریبا 100 افراد اب بھی لاپتا ہیں، باقی کو بعد میں چھوڑ یا عدالت میں پیش کر دیا گیا تھا، یا پھر سیکیورٹی فورسز کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں ان کی موت کو رپورٹ کیا گیا۔

ہیومن رائٹس واچ کی سینئر تحقیق کار برائے ایشیا جولیا بلیکنر نے بتایا کہ بنگلہ دیشی حکام جبری گمشدگیوں کی حقیقت کو مسترد کرکے کسی کو بے وقوف نہیں بنا رہے ہیں، وہ متاثرین کے خاندانوں کے دکھ میں اضافہ کر رہے ہیں۔

سیکیورٹی فورسز پر حزب اختلاف کے ہزاروں کارکنان کو حراست میں لینے اور سیکڑوں کو ماورائے عدالت قتل کرنے، سیکڑوں حامیوں اور رہنماؤں کو لاپتا کرنے کا الزام ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024