ایشیا کپ: پاکستان اور بھارت ایک بار پھر آمنے سامنے
دنیائے کرکٹ کی نگاہیں ایک بار پھر پاکستان اور بھارت کے درمیان میچ پر لگی ہوئی ہیں جو اتوار کو کولمبو میں کھیلا جائے گا۔ اگرچہ بارش اس مرتبہ بھی رنگ میں بھنگ ڈال سکتی ہے لیکن اطمینان کی بات یہ ہے کہ بارش ہوجانے کی صورت میں ریزرو ڈے رکھا گیا ہے اور میچ جہاں روکا جائے گا وہیں سے دوبارہ شروع ہوگا۔ یعنی اگر اتوار کو ایک اننگ مکمل ہونے کے بعد میچ روک دیا گیا تو پیر کے روز وہ دوبارہ شروع کیا جائے گا۔
بھارتی ٹیم جو پالی کیلے میں ممکنہ شکست سے بچ گئی تھی اب اس کی تقدیر کا فیصلہ آسان ہوگیا ہے اور کسی بھی شکست کو ٹالنے کے لیے موسم کو مسلسل دو دن بھارت پر مہربان رہنا ہوگا۔
سپر فور کے مرحلے میں دونوں ٹیمیں کمزور ٹیموں کو شکست دے کر آگے پہنچی ہیں لیکن دونوں کے خلاف سو درجے کمتر ٹیم نیپال نے اپنی قوت سے زیادہ کارکردگی دکھائی ہے۔ اگر انہوں نے پاکستان کی ابتدائی وکٹیں جلد اڑادی تھیں تو ان کی بیٹنگ نے بھی بھارتی باؤلرز کو پریشان کردیا تھا۔ بھارت کے خلاف 200 سے زائد اسکور کرنے پر بھارتی میڈیا نے قومی ہیروز کی بہت کلاس لی ہے۔ ایک کمزور اور ناتجربہ کار بیٹنگ کے خلاف جس طرح بھارتی باؤلنگ جدوجہد کررہی تھی اس نے احمدآباد کے ورلڈکپ کے معرکے سے قبل ہی پاکستانی بیٹنگ کی دھاک بٹھادی ہے۔
کولمبو میں اگست سے ستمبر تک موسلادھار بارشیں ہوتی ہیں۔ مون سون کے اختتامی فیز پر سری لنکا کے مغربی علاقے بارش سے تربتر رہتے ہیں ایسے میں ایشیا کپ کے اہم مقابلے کولمبو میں رکھنے پر سخت تنقید کی جارہی ہے۔ اسے ایشین کرکٹ کونسل کے صدر جے شاہ کی ہٹ دھرمی سے زیادہ بھارت کی پسپائی کہا جارہا ہے۔
بھارتی بیٹنگ جس طرح پہلے میچ میں تتر بتر ہوئی تھی اس نے اتوار کے میچ کا مسودہ پہلے ہی سے تحریر کردیا ہے۔
شاہین، نسیم اور حارث کی بمباری
بھارتی میڈیا پاکستانی باؤلرز کو اب مارٹر توپوں سے تشبیہ دے رہا ہے۔ ان کے آگے بھارت کے مایہ ناز بلے باز سوکھے پتوں کی طرح بکھر رہے تھے، اس باؤلنگ اٹیک نے کشمیر سے کنہیا کماری تک سنسنی پھیلادی ہے۔
شاہین شاہ آفریدی جنہیں قدرتی طور پر اپنی کلائی کو موڑنے میں ملکہ حاصل ہے وہ آخری وقت میں گیند پھینکتے ہوئے کلائی کو نیچے کی طرف جھکاتے ہیں اس سے ہوتا یہ ہے کہ گیند اپنی حد سے زیادہ باہر کی طرف نکلتی ہے اور بلے باز کے پاس گیند کی سمت کا تعین کرنے کا وقت نہیں ہوتا۔ روہت شرما کی بار بار اگلے قدموں پر آؤٹ ہونے کی وجہ ہی یہی ہے اور پھر شاہین شاہ جس مہارت سے کریز کا استعمال کرتے ہیں اس سے گیند سیم بھی بہت ہوتی ہے۔
بھارتی کیمپ میں شاہین شاہ کی اس گیند کا بار بار تجزیہ کرکے سمجھایا جارہا ہے کہ انہیں کیسے کھیلا جائے۔ جبکہ نسیم شاہ کی باؤنسرز اور حارث رؤف کی یارکرز نے بھی پریشان کررکھا ہے۔ بھارت کا سارا زور اس بات پر ہوگا کہ سیمرز کے اوورز کو نکالا جائے اور اسپنرز پر اٹیک کیا جائے۔
پاکستانی ٹیم کی بلے بازی
پاکستانی بیٹنگ اس وقت بہت سکون میں ہے کیونکہ مڈل آرڈر پرفارم کررہا ہے۔ بابراعظم کو دوسرے اینڈ سے مکمل تعاون حاصل ہے جس کے باعث بیٹنگ پر دباؤ کم ہے۔ بھارتی باؤلنگ واجبی سی ہے۔ جسپریت بمراہ کی واپسی نے اسے مضبوط تو کیا ہے لیکن دوسرے سیمرز کی کارکردگی معمولی ہے۔ کلدیپ یادیو اور روی جڈیجا کی اسپن باؤلنگ قابل دید ہوگی۔
پاکستان نے اوپنر فخر زمان کو مسلسل ناکام ہونے کے باوجود برقرار رکھا ہے جو حیرت انگیز ہے!
بھارت کے خلاف سلمان علی آغا کی بیٹنگ بہت اہم ہوگی کیونکہ محمد رضوان کا اسپنرز کے خلاف ریکارڈ اچھا نہیں ہے۔ پاکستان ٹیم وہی ہوگی جس نے بنگلہ دیش کو شکست دی تھی لیکن سعود شکیل کو کھلانا زیادہ سود مند ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ وہ ورلڈکپ اسکواڈ میں شامل ہیں اور ضروری ہے کہ انہیں اب ٹیم کا حصہ بنایا جائے۔ پاکستان غیر ضروری طور پر فہیم اشرف کو کھلارہا ہے۔ ان کی جگہ سعود شکیل بہتر ہوں گے۔
بھارت بھی ممکنہ حد تک وہی ٹیم کھلائے گا جوکہ پہلا میچ کھیلی تھی اور ویرات کوہلی ایک بار پھر سب کی امیدوں کا مرکز ہوں گے۔
میچ کے اثرات کیا ہوں گے؟
سب سے اہم سوال جو گردش کررہا ہے کہ کیا اس میچ کے کچھ اثرات ہوں گے؟ اگر فائنل بھی ان ہی دونوں ٹیموں کو ہی کھیلنا ہے تو اس کا جواب ہے کہ ہر میچ اپنی اہمیت رکھتا ہے۔ اگر کسی بھی میچ کو آسان اور غیر ضروری سمجھ کر نظر انداز کیا جائے تو اس سے آئندہ میچوں میں کمبینیشن بنانے پر اثر پڑتا ہے۔ پاکستان کو اس میچ سے ہی ورلڈکپ کا راستہ متعین کرلینا چاہیے کیونکہ ورلڈکپ کا دباؤ کارکردگی کو خراب کرسکتا ہے۔
پچ کیسی ہوگی؟
کولمبو کی پچ ہمیشہ ملی جلی ہوتی ہے۔ بارشوں کے باعث پچ میں باؤنس کچھ کم ہوگا جس سے بلے بازوں کو مشکلات پیش آسکتی ہیں لیکن بیٹنگ مشکل نہ ہوگی۔ اسپنرز کو مدد مل سکتی ہے خاص طور سے کلدیپ یادیو اور سلمان آغا اچھی باؤلنگ کرسکتے ہیں۔ پاکستان کا پورا زور فاسٹ باؤلنگ پر ہے اس لیے پاکستان صرف شاداب خان کو ہی بحیثیت اسپنر کھلائے گا لیکن بھارت دو اسپنرز کے ساتھ میدان میں اترے گا۔
کولمبو بڑے اسکورز کے لیے مشہور ہے اس لیے ٹاس بہت اہم ہوگا جو بھی جیتے گا پہلے بیٹنگ کرے گا۔ اگر پاکستان پہلے کھیلتا ہے تو 325 رنز ایک قابل دفاع مجموعہ ہوگا لیکن اس تک پہنچنے کے لیے ذمہ داری سے کھیلنا ہوگا۔
دو روایتی حریفوں کے درمیان سخت مقابلہ ہونے کی امید ہے لیکن پاکستان کو اس لحاظ سے برتری حاصل ہے کہ اس نے دونوں میچ واضح برتری سے جیتے ہیں۔
کیا اتوار دونوں ٹیموں کے لیے خوش قسمت ثابت ہوسکتا ہے؟ شاید ہاں لیکن جیت صرف ایک ٹیم کی ہوتی ہے۔ لہٰذا دونوں حریفوں کے لیے شکست بھی کوئی نئی بات نہیں ہوگی۔ دمکتے ہوئے ستاروں سے سجا کولمبو کا میدان ایک بار پھر خوشیوں کی نوید لےکر آرہا ہے لیکن صرف ان کے لیے جو ہارتی ہوئی بازی اپنے عزم و حوصلہ سے جیت جاتے ہیں۔